سید الشھداء امام حسین علیہ السلام کے کربلا وارد ہونے سے لیکر نو محرم تک بہت اہم واقعات پیش آئے جن کا تزکرہ عموما ہماری مجالس میں نہیں ہوتا۔ جن میں ابن زیاد کے مختلف خطوط، مختلف ملاقاتیں، پانی کے حصول کے لے مختلف کوشش، اور غازی با وفا کے وفا کا امتحان لیتے ہوئے امن نامہ وغیرہ جیسے واقعات شامل ہیں۔
کربلا میں ورود
2محرم الحرام 61 ھ بروزجمعرات کو امام حسین علیہ السلام وارد کربلا ہو ئے۔ واعظ کاشفی اور علامہ اربلی کا بیان ہے کہ جیسے ہی امام حسین (ع) نے زمین کربلا پر قدم رکھا زمین کربلا زرد ہوگئی اور ایک ایسا غبار اٹھا جس سے آپ کے چہرۂ مبارک پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوگئے۔ یہ دیکھ کر اصحاب ڈرگئے اور جنابِ اُم کلثوم رونے لگیں۔
صاحب مخزن البکا لکھتے ہیں کہ کربلا پر درود کے فوراََ بعد جنابِ ام کلثوم نے امام حسین (ع) سے عرض کی،بھائی جان یہ کیسی زمین ہے کہ اس جگہ ہمارا دل دہل رہا ہے۔ امام حسین (ع) نے فرمایا بس یہ وہی مقام ہے جہاں بابا جان نے صفیں کے سفر میں خواب دیکھا تھا۔یعنی یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمارا خون بہے گا۔کتاب مائتین میں ہے کہ اسی دن ایک صحابی نے ایک بیری کے درخت سے مسواک کے لیے شاخ کاٹی تواس سے خون تازہ جاری ہو گیا۔
امام حسین (ع) کا خط اہل کوفہ کے نام
کربلا پہنچنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے اتمام حجت کیلئے اہل کوفہ کے نام قیس ابن مسھر کے ذریعہ سے ایک خط ارسال فرمایا۔ جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ تمھاری دعوت پر میں کربلا تک آگیا ہوں الخ۔ قیس خط لیے جارہے تھے کہ راستے میں گرفتار کر لیے گئے۔اور انھیں ابن زیاد کے سامنے کوفہ لے جاکر پیش کر دیا گیا۔ ابن زیاد نے خط مانگا۔ قیس نے بروایتے چاک کرکے پھینک دیا اوربروایتے اس خط کو کھا لیا۔ ابن زیاد نے انھیں بضرب تازیانہ شہید کر دیا۔
عبیداللہ ابن زیاد کا خط امام حسین (ع) کے نام
علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسین (ع) کے کربلا پہنچنے کے بعد حر نے ابن زیاد کو آپ کی رسیدگی کربلا کی خبردی۔ اس نے امام حسین (ع) کو فوراََ ایک خط ارسال کیا۔ جس میں لکھا کہ مجھے یزید نے حکم دیا ہے کہ میں آپ سے اس کے لیے بیعت لے لوں، یا آپ کو قتل کر دوں۔ امام حسین (ع) نے اس خط کا جواب نہ دیا۔ اس کے بعد آپ نے محمد بن حنفیہ کو اپنے کربلا پہنچنے کی ایک خط کے ذریعہ سے اطلاع دی اور تحریر فرمایا کہ میں نے زندگی سے ہاتھ دھولیا ہے اور عنقریب عروس موت سے ہم کنار ہو جاؤں گا۔
دوسری محرم سے نویں محرم تک کے مختصر واقعات
دوسری محرم ۶۱ ہجری
دوسری محرم الحرام ۶۱ ھجری کو آپ کا کربلا میں ورود ہوا۔ آپ نے اہل کوفہ کے نام خط لکھا۔ آپ کے نام ابن زیاد کاخط آیا، اسی تاریخ کو آپ کے حکم سے برلبِ فرات خیمے نصب کئے گئے۔ حر نے مزاحمت کی اور کہا کہ فرات سے دور خیمے نصب کیجئے۔ عباس ابن علی(علیہما السلام) کو غصہ آگیا، امام حسین (ع) ان کو قابو میں لائے۔اور بقول علامہ اسفرائنی ۳ یا ۵ میل کے فاصلہ پر خیمے نصب کئے گئے، نصبِ خیام کے بعد ابھی آپ اس میں داخل نہ ہوئے تھےکہ چند اشعار آپ کی زبان پر جاری ہوئے۔ جنابِ زینب نے جونہی اشعار کو سنا اس درجہ روئیں کہ بیہوش ہوگئیں۔ امام نے رخسار پر پانی چھڑک کر باہوش کیا پھر آلِ محمد داخل خیمہ ہوئے۔اس کے بعد ساٹھ ہزار درہم پر ۱۶مربع میل زمین خرید کر چند شرائط کے ساتھ انھیں کو ہبہ کر دی۔
تیسری محرم الحرام جمعہ
تیسری محرم الحرام یوم جمعہ کو عمر ابن سعد۵،۶اور بقول علامہ اربلی ۲۲ ہزار سوار و پیادے لے کر کربلا پہنچا اور اس نے امام حسین (ع) سے تبادلہ خیالات کی خواہش کی۔ حضرت نے ارادہ کوفہ کا سبب بیان فرمایا۔ اس نے ابن زیاد کوگفتگو کی تفصیل لکھ دی اور یہ بھی لکھا کہ امام حسین (ع) فرماتے ہیں کہ اگر اب اہل کوفہ مجھے نہیں چاہتے تو میں واپس جانے کوتیارہوں۔ ابن زیاد نے عمر ابن سعد کے جواب میں لکھا کہ اب جب کہ ہم نے حسین (ع) کو چنگل میں لے لیا ہے تو وہ چھٹکارا چاہتے ہیں۔ لات حین مناص۔یہ ہرگز نہیں ہوگا۔ان سے کہہ دو کہ یہ اپنے تمام اعزا و اقربا سمیت بیعت بزید کریں یاقتل ہونے کے لیے آمادہ ہوجائیں۔ میں بیعت سے پہلے ان کی کسی بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں، اسی تیسری تاریخ کی شام کو حبیب ابن مظاہر قبیلہ بنی اسد میں گئے ا ور ان میں سے جانباز، امداد حسینی کے لیے تیار کئے، وہ انھیں لارہے تھے کہ کسی نے ابن زیاد کو اطلاع کر دی۔ اس نے ۴۰۰ سو کا لشکر بھیج کر اس کمک کو روکوا دیا۔
چوتھی محرم الحرام یوم ہفتہ
چوتھی محرم الحرام یوم شنبہ کو ابن زیاد نے مسجد جامع میں ایک خطبہ دیا جس میں اس نے امام حسین (ع) کے خلاف لوگوں کو بھڑکایااور کہا کہ حکم یزید سے تمھارے لیے خزانوں کے منہ کھول دیئے گئے ہیں تم اس کے دشمن حسین (ع) سے لڑنے کے لیے آمادہ ہوجاؤ۔اس کے کہنے سے بے شمار لوگ آمادۂ کر بلا ہو گئے اور سب سے پہلے شمر نے روانگی کی درخواست کی۔ چنانچہ شمر کو چارہزار،ابن رکاب کو دوہزار،ابن نمیر کو چار ہزار، ابن رھینہ کوتین ہزار، ابن خرشہ کو دو ہزار سواردے کر روانہ کر بلا کردیا گیا۔
پانچویں محرم الحرم اتوار
پانچویں محرم الحرام یوم یک شنبہ اتوار کو شیث ابن ربعی کو چار ہزار، عروہ ابن قیس کو چار ہزار، سنان ابن انس کو دس ہزار، محمد ابن اشعث کو ایک ہزار، عبداللہ ابن حصین کو ایک ہزار کا لشکر دے کر روانہ کر دیا گیا۔
چھٹی محرم الحرام بروز پیر
چھٹی محرم الحرام بروز پیر کو خولی ابن یزید اصبحی کو دس ہزار کعب ابن الحروکوتین ہزار،حجاج ابن حرکوایک ہزار کا لشکر دے کر روانہ کر دیا گیا۔ان کے علاوہ چھوٹے بڑے اور کئی لشکر ارسال کر نے کے بعد ابن زیاد نے عمر ابن سعد کو لکھا کہ اب تک تجھے اسی ہزار کا کوفی لشکر بھیج چکا ہوں،ان میں حجازی اور شامی شامل نہیں ہیں۔ تجھے چاہئے کہ بلاحیلہ حوالہ حسین کو قتل کر دے۔ اسی تاریخ کو خوبی ابن یزید نے ابن زیاد کے نام ایک خط ارسال کیا جس میں عمر ابن سعد کے لیے لکھا کہ یہ امام حسین(ع) سے رات کو چھپ کر ملتا ہے۔اور ان سے بات چیت کیاکرتا ہے۔ابن زیاد نے اس خط کو پاتے ہی عمر سعدکے نام ایک خط لکھا کہ مجھے تیری تمام حرکتوں کی اطلاع ہے تو چھپ کر باتیں کرتا ہے۔دیکھ میرا خط پاتے ہی امام حسین (ع) پر پانی بند کر دے اور انھیں جلد سے جلد موت کے گھاٹ اتار نے کی کوشش کر۔
ساتویں محرم الحرام بروز منگل
ساتویں محرم الحرام بروز منگل عمر ابن حجاج کو پانچ سوسواروں سمیت نہرفرات پر اس لیے مقرر کر دیا گیا کہ امام حسین (ع) کے خیمہ تک پانی نہ پہنچنے پائے پھر مزید احتیاط کے لیے چار ہزار کا لشکر دے کر حجر کو ایک ہزار کا لشکر دے کر شیث ابن ربعی کو روانہ کیا گیا۔ اور پانی کی بندش کر دی گئی۔پانی بند ہو جانے کے بعد عبداللہ ابن حصین نے نہایت کر یہہ لفظوں میں طعنہ زنی کی جس سے امام حسین (ع) کو سخت صدمہ پہنچا پھر ابن حوشب نے طعنہ زنی کی جس کا جواب حضرت عباس نے دیا۔ آپ نے غالباََ طعنہ زنی کے جواب میں خیمہ سے ۱۹قدم کے فاصلہ پر جانب قبلہ ایک ضرب تیشہ سے چشمہ جاری کر دیا۔ اور یہ بتادیا کہ ہمارے لیے پانی کی کمی نہیں ہے۔لیکن ہم اس مقام پرمعجزہ دکھانے نہیں آئے بلکہ امتحان دینے آئے ہیں۔
آٹھویں محرم الحرام بروز بدھ
آٹھویں محرم الحرام بروزبدھ کی شب کو خیمہ آلِ محمد سے پانی بالکل غائب ہو گیا۔اس پیاس کی شدت نے بچوں کو بے چین کر دیا ہے۔امام حسین (ع) نے حالات کو دیکھ کر حضرت عباس کو پانی لانے کا حکم دیا آپ چند سواروں کو لے کر تشریف لے گئے اور بڑی مشکلوں سے پانی لائے۔وَلِذَالِکَ سُمِیَ العَبَّاسُ السقَاء اسی سقائی کی وجہ سے عباس(ع) کو سقاء کہا جاتا ہے۔ رات گزرنے کے بعد جب صبح ہوئی تو یزید ابن حصین صحرائی نے باجازت امام حسین (ع)،ابن سعد کو فہمائش کی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔اس نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں حسین (ع) کو پانی دے کر حکومت رے چھوڑدوں۔ امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ ابن حصین اور ابن سعد کی گفتگو کے بعد امام حسین(ع) نے اپنے خیموں کے گرو خندق کھودنے کاحکم دیا۔ اس کے بعد حضرت عباس(ع) کو حکم دیا کہ کنواں کھود کر پانی برآمد کرو۔آپ نے کنواں تو کھودا۔لیکن پانی نہ نکلا۔ (1)
نویں محرم الحرام بروز جمعرات
نویں محرم الحرام بروز جمعرات کی شب کو امام حسین اور عمر ابن سعد میں آخری گفتگو ہوئی۔آپ کے ہمراہ حضرت عباس اور علی اکبر بھی تھے۔ آپ نے گفتگو میں ہر قسم کی حجت تمام کر لی۔
نویں کی صبح کو آپ نے حضرت عباس کو پھر کنواں کھودنے کا حکم دیا لیکن پانی بر آمد نہ ہوا۔
تھوڑی دیر کے بعد امام حسین نے بچوں کی حالت کے پیشِ نظر پھر عباس سے کنواں کھودنے کی فرمائش کی آپ نے سعی بلیغ شروع کردی جب بچوں نے کنواں کھدتا ہوا دیکھا تو سب کوزے لے کر آپہنچے۔ ابھی پانی نکلنے نہ پایا تھا کہ دشمنوں نے آکر اسے بند کر دیا۔ فھربت الاطفال الخیام دشمنوں کو دیکھ کر بچے خیموں میں جا چھپے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد حضرت عباس (ع) نے کنواں کھودا وہ بھی بند کر دیا گیا حتی حفراربعا۔یہاں تک کہ چار کنویں کھودے اور پانی حاصل نہ کر سکے۔ اس کے بعد امام حسین (ع) ایک ناقہ پر سوار ہوکر دشمن کے قریب گئے اور اپنا تعارف کرایا لیکن کچھ نہ بنا (2)
مورخین لکھتے ہیں کہ نویں تاریخ کو شمر کوفہ واپس گیا اور اس نے عمر ابن سعد کی شکایت کرکے ابن زیاد سے ایک سخت حکم حاصل کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اگرحسین (ع) بیعت نہیں کرتے تو انھیں قتل کرکے ان کی لاش پرگھوڑے دوڑادے اور اگر تجھ سے یہ نہ ہو سکے تو شمر کو چارج دے دے ہم نے اسے حکم تعمیل حکم یزید دے دیا ہے۔
ابن زیاد کا حکم پاتے ہی ابن سعد تعمیل پر تیار ہو گیا۔ اسی نویں تاریخ کو شمر نے حضرت عباس(ع) اور ان کے بھائیوں کو امان کی پیش کش کی، انھوں نے بڑی دلیری سے اسے ٹھکرادیا (3)
اسی نویں کی شام آنے سے پہلے شمر کی تحریک سے ابن سعد نے حملہ کاحکم دے دیا۔ امام حسین (ع) خیمہ میں تشریف فرما تھے۔ آپ کو حضرت زینب(ع) پھر حضرت عباس (ع) نے دشمن کے آنے کی اطلاع دی۔ حضرت نے فرمایا کہ مجھ پر ابھی غنودگی طاری ہو گئی تھی۔ میں نے آنحضرت کو خواب میں دیکھا۔ انھوں نے فرمایا کہ انک تروح غدا حسین (ع) تم کل میرے پا س پہنچ جاؤ گے۔
جناب زینب رونے لگیں اور امام حسین (ع) نے حضرت عباس (ع) سے فرمایا کہ بھیا تم جاکر ان دشمنوں سے ایک شب کی مہلت لے لو۔ حضرت عباس(ع) تشریف لے گئے اور لڑائی ایک شب کے لیے ملتوی ہو گئی۔ (4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) آفتاب در مصاف مقام معظم رہبری ص 12 سے 41
(2) فی رحاب الامام الحسین ع آیت اللہ آصفی ص 15
(3)ذکر العباس از۱۷۶تا۱۸۲)
(4) قصہ کربلا آیت اللہ نظری منفرد
Add new comment