خلاصہ: امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے بھائی حضرت امام حسن (علیہ السلام) کی طرح معاویہ کے زمانہ میں قیام نہیں کیا، کیونکہ معاویہ نے مکاریوں اور عوامفریبیوں سے معاشرہ کو اتنا بدحال بنا دیا تھا کہ قیام بے اثر ہوجاتا، ان مکاریوں میں سے ایک، ظالم اور خونخوار کارندوں کو حکومتی منصب سونپ دینا ہے، جنہوں نے معاویہ کے حکم سے مختلف تخریب کاریاں کیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ بالکل وہی سوال ہے جو حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کے بارے میں لوگوں کے ذہن میں آتا ہے کہ امام حسن (علیہ السلام) نے کیوں جنگ نہیں کی جبکہ امام حسین (علیہ السلام) نے قیام کیا اور جنگ کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے کس سے جنگ کی؟ معاویہ سے یا یزید سے؟ یزید سے جنگ کی مگر معاویہ سے جنگ نہیں کی! کیوں نہیں کی؟ چونکہ جو رکاوٹیں امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کو معاویہ کی مکاریوں کی وجہ سے درپیش تھیں، انہی رکاوٹوں کی وجہ سے امام حسین (علیہ السلام) نے بھی معاویہ سے جنگ نہیں کی، یہاں تک تو دونوں اماموں کا جنگ نہ کرنا برابر ہے۔ امام حسین (علیہ السلام) نے یزید سے جنگ کی، کیونکہ حالات بدل گئے تھے اور یزید اپنے باپ کی طرح منافقت کا نقاب اوڑھ کر مکاری نہیں جانتا تھا بلکہ کھلم کھلا کفر اور عیاشی کرنا ہی جانتا تھا۔ لہذا اگر امام حسن مجتبی (علیہ السلام) یزید کے زمانہ میں زندہ ہوتے تو بالکل امام حسین (علیہ السلام) کی طرح اس سے جنگ کرتے، بنابریں فرق ائمہ میں نہیں ہے، بلکہ دشمنوں کی پالیسیوں، مکاریوں اور عوامفریبیوں میں فرق ہے، چونکہ اہل بیت (علیہم السلام) کے علاوہ کسی شخص کو مسند خلافت پر بیٹھنے کا کوئی حق حاصل نہیں، لہذا جو بیٹھے گا وہی غاصب ہوگا، اس غاصب کی حکومت کا تخت الٹ دینے کے لئے کچھ شرطیں ہیں، ان شرطوں کو پرکھنا اور صورتحال کا جائزہ لینا اور قیام کرنا یا خاموشی اختیار کرنا، صرف امام کا کام ہے، اسی لیے بعض اوقات مختلف ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کو قریبی اور اصحاب مشورے دینا شروع کردیتے تھے، حالانکہ امام ہر انسان سے بہت زیادہ حالات سے مطلع ہوتا ہے اور امام ہر متقی انسان سے بڑھ کر حکم الہی کو بجالانے میں جدوجہد کرتا ہے، کیونکہ امام ہی کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی ہدایت کرے اور امام ہر لمحہ اللہ کے امر و نہی کی طرف متوجہ رہتا ہے، لوگوں کو چاہیے کہ اپنی زندگی کے قدم قدم پر اس آفتاب ہدایت کے حکم کے مطابق عمل پیرا ہوتے رہیں تو اس منزل تک پہنچ جائیں گے جہاں پر خدا نے پہنچانے کا ارادہ کیا ہے، لیکن اگر اپنے افکار، سوچ اور توانائیوں کی بنیاد پر امام کو مشورہ دیں اور اعتراض کرتے ہوئے، امام کو قیام کا مشورہ دیں یا قیام کرتے ہوئے امام کو قیام سے دستبردار ہونے کا اعتراضیہ مشورہ دیں تو یہ نادرست ہے۔ بنابریں صرف یہی دیکھنا چاہیے کہ امام کا کیا حکم ہے، بیٹھنے کا حکم ہے یا قیام کرنے کا۔ امام جو لوگوں کو حکم دے گا، وہی اللہ تعالی کا فیصلہ ہے اور امام کی اطاعت کرنا اللہ کی اطاعت ہے اور امام کی نافرمانی کرنا، اللہ کی نافرمانی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے یزید کے زمانہ میں تو قیام کیا، مگر اپنی امامت کے دس سال کے دوران، معاویہ کے زمانہ میں قیام کیوں نہیں کیا؟
گذشتہ مقالہ میں تین وجوہات بیان کی جاچکیں۔ اب اس تحریر میں چوتھی وجہ کو بیان کیا جارہا ہے۔
۱۔ کارندوں کا کردار: معاویہ نے حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کو شہید کرنے کے بعد، دس سال سے کم عرصہ میں، جرائم پیشہ افراد جیسے، عمرو عاص، مغیرة ابن شعبه، زیاد ابن ابیه، بُسر ابن ارطاة، سمرة ابن جندب اور سینکڑوں سنگدل، بے رحم اور دشمنی سے لبریز امویوں کو اپنی حکومت میں کارندہ کے طور پر قرار دیا۔ یہ ظالم، حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے شیعوں کو قتل کرتے یا پھانسی پر لٹکاتے تھے اور جو شخص اہل بیت (علیہم السلام) کے محب کے عنوان سے مشہور ہوتا، اس کے گھر کو تباہ کردیتے اور معاویہ سے بیعت کرنے کو حضرت علی (علیہ السلام) اور آپؑ کی اولاد سے نفرت کرنے پر موقوف جانتے تھے۔[1] وہ نور امامت کو بجھانے کے لئے کوشش کرتے تھے کہ مسلمانوں کو معاویہ کی ایجاد کی ہوئی بدعتوں کی اطاعت کرنے پر مجبور کرتے تھے۔ وہ کسی کو معاویہ کی حکومت کے خلاف اعتراض اور تنقید کرنے کا موقع نہیں دیتے تھے۔ ایک اور حربہ جو معاویہ کے کارندے، اس کی حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے استعمال کرتے تھے، شیعوں پر ظلم کرنا اور مالی لحاظ سے دباو میں رکھتے ہوئے ان کو فقر اور بھوک سے دوچار کرنا تھا۔ ان سفاک اور خونخوار کارندوں کے نام، مسلمانوں میں دہشت پھیلا دیتے تھے، جیسے بسر ابن ارطاۃ جس نے تیس ہزار افراد کو قتل کیا اور بہت سارے افراد کو جلایا۔[2]
یہ ظلم اور اقتصادی و سیاسی دباو جو معاویہ کے کارندوں کی طرف سے شیعوں اور علوی خاندان کے پیروکاروں پر کیا جاتا تھا، اس کے بدلہ میں وہ معاویہ کے حکم سے قبیلوں کے سرداروں کو بیشمار ہدایا پیش کرتے تھے تاکہ معاویہ سب سے بڑا سخی خلیفہ کے نام سے پہچانا جائے۔[3] یہ دباو اور جبر معاویہ کے کارندوں کے ذریعہ، حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی امامت کے دس سال میں بہت زیادہ بڑھ گیا اور شدت پاگیا۔ لہذا معاویہ کے زمانہ میں حضرت سیدالشہدا (علیہ السلام) کا قیام نہ صرف اسلامی معاشرہ پر اچھا اثر نہیں ڈال سکتا تھا بلکہ آپؑ کی شہادت سے، یہ سوچ طاقتور ہوجاتی کہ اس کے بعد کوئی شخص معاویہ کے کارندوں کے غیرانسانی اور غیردینی کاموں کے مقابلہ میں قیام کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور ان کے لئے راستے کھلے ہیں جو ظلم و ستم اسلامی معاشرے اور مسلمانوں پر کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔
نتیجہ: امام مقام عصمت پر فائز ہونے اور اللہ کی مکمل طور پر اطاعت کرنے کے باعث، جانتا ہے کہ کن حالات میں قیام کیا جائے اور کیسی صورتحال میں خاموشی اختیار کی جائے۔ حضرت امام حسین (علیہ السلام) جو آیت تطہیر کے مصداق اور خامس آل عبا ہیں، ہر انسان سے بہتر جانتے تھے کہ کیسے حالات میں دشمن سے مقابلہ کیا جائے، لہذا معاویہ کی عوامفریبی کے پیش نظر قیام نہ کیا اور جب حالات میں تبدیلی آئی، یزید نے اپنے باپ کی غاصبانہ خلافت کے بعد خلافت پر غاصبانہ قبضہ کیا اور کل کی منافقت بے نقاب ہوگئی اور اس کا کفر و شرک منظر عام پر اگیا تو حضرت سیدالشہدا (علیہ السلام) نے بحکم پروردگار قیام کیا اور اپنا سر دے کر دین خدا کے علم کو سربلند اور سرفراز کرتے ہوئے علم اسلام کو دنیابھر میں لہرا کر کلمہ توحید کو گھر گھر تک پہنچا دیا اور خون کی تلوار پر فتح یوں ظاہر ہوئی کہ امام حسین (علیہ السلام) نے اپنی مظلومیت کے ذریعے ظالم کے ظلم کو عیاں کردیا اور ظالم حکمران کا ظالمانہ تخت الٹ کر تمام شہدا کے سید و سردار بن گئے، آج دنیا والوں کے دلوں پر حکومت نہ معاویہ کی ہے نہ یزید کی، اگر ہے تو حسینؑ ابن علیؑ کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] امام حسین علیه السلام در آیینه تاریخ، بدر تقی زاده انصاری، ص 173۔
[2] شرح نهج البلاغه، ج 2، ص 17۔
[3] العثمانیّة، ابوعثمان عمرو بن بحرالجاحظ، ص 95۔
Add new comment