معصومین
جناب میثم تمار نے جب حضرت امام علی علیہ السلام سے پیغام غدیر فراموش کئے جانے کے اسباب و دلائل کے سلسلہ میں دریافت کیا تو حضرت نے فرمایا : ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے غدیر کے دن کے فرمایا کہ خدایا !
غدیر خم کا واقعہ شیعہ اور سنی کتابوں میں مختلف اور متواتر طریقوں سے نقل ہوا ہے اس حد تک کی واقعہ کی اصلیت اور حقیقت میں کسی کو کوئی شک و شبھہ نہیں رہا ، بہت سے بزرگ صحابہ کرام بھی اس بات کا اعتراف و اقرار کرتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، رسول اسلام صلی اللہ علیہ و الہ
جب مرسل اعظم ختمی مرتب حضرت محمد مصطفی صلّی اللّه علیه وآله وسلم نے علی علیه السلام کو غدیر کے دن حکم خدا سے خلیفہ کے عنوان سے منصوب اور معین کردیا اور ان کے سلسلہ میں فرمایا "من کنت مولاه فعلی مولاه" میں جس کا مولا اور ولی ہوں علی اس کے مولا و ولی ہیں ، بڑی مختصر سی مدت میں یہ بات شھروں اور دیہ
ملت اسلامیہ خود کو دو پروگرام کے روبرو پاتی ہے ، ایک "الھی پروگرام اور پروجیکٹ" کہ جس میں غدیر کا وجود ہے اور ختمی مرتبت مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے وسیلہ امام علی علیہ السلام کی ولایت و وصایت کا اعلان کیا گیا ہے اور دوسرا "پروگرام اور پروجیکٹ سقیفائی" ہے ، یعنی خدا اور
اسلامی کلینڈر میں ۱۸ ذی الحجۃ کا دن عید غدیر خم کا دن ہے ، شیعہ مذھب کے پیرو معتقد ہیں کہ اس دن علی ابن ابی طالب علیہ السلام مرسل اعظم حضرت ختمی مرتب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ جانشین اور مسلمانوں کے خلیفہ معین کئے گئے ، شیعہ معتقد ہیں کہ خدا کے اخری نبی (ص) نے خطبہ غدیریہ میں «
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حکم خدا سے غدیر کے میدان میں امام علی ابن طالب علیہ السلام کی خلاف اور وصایت کا اعلان فرمایا ، سچ تو یہ ہے کہ منافقوں کو اس بات کی خبر بھی نہ تھی کہ پیغمبر خدا (ص) کے اس اچانک حکم کا منشاء کیا ہے ، کونسی اہم بات پیش اگئی ، تھوڑی دیر گزری نہ تھی کہ نماز جماع
ہجرت کا دسواں سال تھا اور حج کا موسم اور حجاز کا میدان ایک کثیر اجتماع پر گواہ تھا ، رسول کی امت ایک نعرہ کے ساتھ اپنے مقصد کی جانب رواں دواں تھی ، اس سال حج کے موقع پر کچھ اور ہی شوق و اشتیاق تھا ، مسلمان جلدی جلدی منزلوں کو طے کرتے ہوئے خود کو مکہ اور بیت اللہ پہونچا رہے تھے ، لبیک اللھم لبیک ک
جس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی محبت بھری انکھیں دنیا سے بند کرلیں اور افتاب رسالت لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ، اس وقت موقع کے متلاشی افراد سقیفہ بنی سعدہ میں جمع ہوئے اور ایک ہنگامے کے بعد حکومت کی باگ ڈور ابوبکر فرزند ابوقحافہ کے سپرد کردی جبکہ پیغمبر اسلام (ص) پہلے ہی خ
ابوعیسی محمد ترمذی متوفی (۲۰۹ ـ ۲۷۹ هجری قمری) نے اپنی کتاب سنن ترمذی میں کہ جو علم حدیث اور روایت کی دنیا میں اہل سنت کی معتبر کتابوں میں سے ہے اور اسے صحاح ستہ میں سے شمار کیا جاتا ہے ، واقعہ غدیر کو لکھتے ہوئے رسول اسلام (ص) کی یہ حدیث تحریر فرمائی ہے : « مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ، فَهذا عَلِىٌّ مَ