ابوعیسی محمد ترمذی متوفی (۲۰۹ ـ ۲۷۹ هجری قمری) نے اپنی کتاب سنن ترمذی میں کہ جو علم حدیث اور روایت کی دنیا میں اہل سنت کی معتبر کتابوں میں سے ہے اور اسے صحاح ستہ میں سے شمار کیا جاتا ہے ، واقعہ غدیر کو لکھتے ہوئے رسول اسلام (ص) کی یہ حدیث تحریر فرمائی ہے : « مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ، فَهذا عَلِىٌّ مَوْلا ؛ میں جس کا مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں » (۱)
نیز کتاب المعجم الکبیر للطبرانی میں ذکر ہوا ہے کہ « يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَهذا عَلِىٌّ مَوْلاهُ أَللّهُمَّ والِ مَنْ والاهُ وَ عادِ مَنْ عاداهُ... ؛ [رسول اسلام] نے غدیر کے دن فرمایا: میں جس کا مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں ، خداوندا جو علی [ع] سے محبت کرے تو بھی اس سے محبت کر اور جو علی [ع] سے دشمنی کرے تو بھی اس سے دشمنی کر » (۲)
اخری سخن:
چونکہ واقعہ غدیر خم اور امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کا تذکرہ شیعہ اور اہل سنت کی اکثر معتبر کتابوں میں موجود ہے ، تمام علمائے اسلام واقعہ غدیر کی صحت پر متفق ہیں کیوں کہ وھابی اور کچھ متعصب لوگوں کے برخلاف امام علی علیہ السلام کی دوستی کا معاملہ کوئی پوشیدہ ، ڈھکا چھپا یا پیچیدہ معاملہ نہیں تھا کہ جس کے اعلان کے لئے خداوند متعال اس قدر اھتمام کرتا اور حضرت محمد مصطفی (ص) کو ہر قسم کے بلوے سے محفوظ رکھنے کا اطمینان دلاتا نیز مسلمانوں کو خشک و گرم اور تپتے صحرا میں روکتا اور خود رسول اسلام (ص) پہلے ان کے نفسوں پر اپنے اختیار اور ولایت کا اقرار لیتے ۔
امام حنبل نے اپنی کتاب مسند امام أحمد بن حنبل میں تحریر کیا ہے کہ : حضرت على علیه السّلام نے فرمایا : رسول خدا صلّى اللّه علیه و آله وسلم «خم» کے میدان میں ایک درخت کے نیچے تشریف فرما تھے ، بہت دیر نہیں گذری تھی کہ حضرت نے میرا ہاتھ تھاما اور لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا: اے لوگو ! کیا تم گواہی نہیں دیتے خداوند متعال تمھارا خدا ہے ؟ لوگوں نے کہا ، جی ہاں ! حضرت نے فرمایا : کیا شھادت نہیں دیتے کہ خدا اور رسول تمھارے نفسوں پر ولایت رکھتے ہیں اور خدا و رسول تمھارے مولا ہیں ؟ سب نے کہا جی ہاں ! پھر حضرت نے فرمایا : من کنت مولاہ فھذا مولاہ ؛ جس کا میں مولا ہوں یہ [علی] اس کے مولا ہیں ۔ میں تمھارے درمیان دو گراں بہا چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ جب تک اس سے متمسک رہوگے ھرگز گمراہی کے دلدل میں نہ پھنسوگے ۔ ایک : خدا کی کتاب ہے جو خدا اور تمھارے درمیان مضبوط اور مستحکم رسی کے مانند ہے جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ می دوسرا سرا تمھارے ہاتھوں میں ہے اور دوسرے میرے اھل بیت ہیں ۔ (۳)
ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس کی سند کے صحت پر تاکید کی ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے ۔ (۴)
حدیث غدیر خم کو امام نسائی نے بھی اپنی کتاب سنن نسائی میں أبو طفیل از زید بن أرقم اور دیگر معتبر صحابہ کرام سے نقل کیا ہے نیز گذشتہ قسط میں اس بات کو تحریر کرچکا ہوں کہ ترمذی نے بھی سنن ترمذی میں حدیث غدیر خم کو نقل کیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: ترمذی، محمد بن عیسی، بیروت، دارالفکر، ج ۱۲، ص ۱۷۵ ۔
۲: کتاب المعجم الکبیر للطبرانی ۔
۳: الشیبانی ، أحمد بن حنبل أبو عبدالله ، مسند الإمام أحمد بن حنبل ۔
۴: ابن حجر عسقلانی ، المطالب العالیة زوائد المسانید الثمانیة ، ج ۱۶ ، ص ۱۴۲ ، ح ۳۹۴۳ ۔
Add new comment