غدیر خم کا واقعہ شیعہ اور سنی کتابوں میں مختلف اور متواتر طریقوں سے نقل ہوا ہے اس حد تک کی واقعہ کی اصلیت اور حقیقت میں کسی کو کوئی شک و شبھہ نہیں رہا ، بہت سے بزرگ صحابہ کرام بھی اس بات کا اعتراف و اقرار کرتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، رسول اسلام صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے وسیلہ حجۃ الوداع کے موقع پر غدیر خم میں ولی ، خلیفہ اور جانشین معین کئے گئے ہیں ۔
غدیر خم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ۱۸ ذی الحجہ سن ۱۰ ہجری قمری کو غدیر خم کی سرزمین پر اپنے آخری حج کی واپسی پر خدا سے حکم سے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی خلافت و امامت اور جانشینی کا باضابطہ سرکاری اعلان میں کیا۔ [1] شیعہ کتابوں میں اس دن کو عید اللہ الاکبر کے نام سے جانا جاتا ہے، [3] اہل بیت اطھار علیھم السلام کے نزدیک یہ دن سب سے زیادہ معزز اورمحترم دن ہے ۔ [4]
میدان غدیر خم میں جب تمام مسلمان اکٹھا ہوگئے تو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اپنی تاریخی تقریر اور آخری سرکاری خطبہ کا آغاز کیا اور لوگوں سے خود کے ولی اور سرپرست ہونے کا اعتراف لیتے ہوئے کہا کہ " من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ" میں جس کس مولا ہوں یہ علی اس کے مولا ہیں ۔
پھر اس لئے کہ کسی قسم کا شک باقی نہ رہ جائے بزرگ صحابہ کرام کے نزدیک ولی و جانشین کا چہرہ واضح ہورہے انحضرت (ص) نے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بازوں کو تھاما اور فرمایا «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ ؛ [5] جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کے مولا ہیں ، خدایا جو ان سے محبت کرے تو اس سے محبت کر ، جو ان سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی کر جو انہیں رسوا کرے تو اسے رسوا کر اور ان کی مدد کرے تو اس کی مدد فرما ۔»
رسول اسلام کے اس اعلان کے بعد عمر بن خطاب اپنی جگہ سے اٹھے اور انہوں نے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو خطاب کر کے فرمایا : «هنيئاً لك يا ابن أَبِي طَالِبٍ أَصْبَحْتَ الْيَوْمَ وَلِيَّ كُلِّ مُؤْمِنٍ ؛[6] اے ابوطالب کے بیٹے اپ کو مبارک ہو، اج اپ ہر مومن مرد و زن کے ولی و مولا ہوگئے ۔ نیز بعض روایتوں میں یوں ایا ہے کہ «أَصْبَحْتَ مولایَ؛ [7] اج اپ میرے مولا اور سرپرست ہوگئے ۔ » یہ پہلا وہ اعتراف ہے جسے میدان غدیر خم میں موجود مورخین اور راویوں نے ثبت کیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: قران کریم ، سوره مائده ، آیه67 ۔
۲: تهذیب الاحکام، صدوق، ج3، ص143 ۔
۳: بحار الانوار، مجلسی ، ج 31 ، ص 127 ۔
۴: تاریخ یعقوبی ، ج 2 ، ص 112 ۔
۶: البدایة و النهایة ، ابن کثیر، ج7 ، ص 386 ۔
۷: تاريخ دمشق ، این عساکر، ج 42 ، ص 233 ۔
Add new comment