ملت اسلامیہ خود کو دو پروگرام کے روبرو پاتی ہے ، ایک "الھی پروگرام اور پروجیکٹ" کہ جس میں غدیر کا وجود ہے اور ختمی مرتبت مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے وسیلہ امام علی علیہ السلام کی ولایت و وصایت کا اعلان کیا گیا ہے اور دوسرا "پروگرام اور پروجیکٹ سقیفائی" ہے ، یعنی خدا اور اس کے رسول (ص) کے پاس رسول اسلام (ص) کے انتقال کے بعد کوئی پروگرام موجود نہیں ہے اور مسلمان لاوارث ، بغیر سربراہ و حکمراں کے چھوڑ دیئے گئے ہیں ، اسی بنیاد پر صحابہ کی چادر اوڑھے کچھ لوگوں نے « البتہ نہ پوری ملت اسلامیہ اور نہ مدینہ کے تمام لوگ بلکہ خاص لوگ » اکٹھا ہوکر مسلمانوں کی تقدیر کا فیصلہ کرلیا اور اعلان کردیا کہ قیام قیامت تک ان کے فیصلہ کی پیروی اور اطاعت کی جائے اور ماحول کچھ ایسا بنایا کہ اگر ان کے فیصلے و نظریات کی پیروی نہ کی گئی تو مخالفین پر رافضی اور باغی جیسے ہزاروں قسم کے الزامات لگا دیئے جائیں ۔
شیعہ مبانی میں پختگی اور استحکام
اگر چہ اہل سنت مصنفین نے اپنی حدیث و تفسیر و تاریخ کی کتابوں میں غدیر کا بہت کم تذکرہ کیا ہے مگر شیعہ اور اہل بیت اطھار علیھم السلام کے چاہنے والوں نے ہرگز یہ ضروری نہیں سمجھا کہ اپنے عقائد و دینی مبانی کی تقویت میں اہل سنت کتابوں کو معیار بنائیں یا ان سے استفادہ کریں اور اگر بعض اوقات ان کتابوں سے استفادہ کیا جاتا ہے تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے عقائد اہل سنت کی کتابوں سے لیتے ہیں بلکہ اتمام حجت کے عنوان سے ہے ۔
ایات غدیر
ہم اہل سنت کی پرانی اور قدیمی یعنی قرن دوم و سوم کی کتابوں میں اس بات کے شاھد ہیں کہ اہل سنت مفسرین اور صاحبان قلم نے اپنی کتابوں میں غدیر کا تذکرہ کیا ہے ، اہل سنت مصنفین اپنی تفسیر کی کتابوں میں جب ان تین ایات تک پہنچتے ہیں تو غدیر کا تذکر کرتے ہیں ۔
آیه: سَأَلَ سائِلٌ بعذاب واقِعٍ
نمونہ کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ مذکورہ ایت کریمہ کو صاحب کتاب تفسیر الغریب قرآن حافظ ابوعبید هروی، متوفی 223 ھ ق ، ابوبکر نقاش موصلی بغدادی متوفی 351 ھ ق ، ابواسحاق ثعلبی نیشابوری متوفی 427 ھ ق نے نیز قرن ۶ و ۷ تک کہ جو انصاف پسند مصنفین کا دور تھا انہوں نے اس ایت کریمہ کے شان نزول میں اپنی تفسیروں میں رقم فرمایا ہے کہ ماجرا کیا تھا ؟ اور سائل کون تھا ؟ عذاب الھی کی درخواست کس نے کی تھی ؟ اور کس سلسلہ میں عذاب کا مطالبہ کیا تھا ، انہوں نے نمونہ اور مثال کے لئے کتاب "الکشف و البیان ثعلبی" متوفی 427 ھ ق کو گواہ بنایا ہے ، انہوں نے سورہ معارج کی ابتدائی ایت کے ذیل میں سفیان بن عیینه سے روایت نقل کی ہے کہ سفیان بن عیینه سے اس ایت کریمہ کے سلسلہ میں سوال کیا گیا تو انہوں نے پورا ماجرا بیان کیا ۔ (۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: قران کریم ، سورہ معارج ، آیت ۱ ۔
Add new comment