جناب میثم تمار نے جب حضرت امام علی علیہ السلام سے پیغام غدیر فراموش کئے جانے کے اسباب و دلائل کے سلسلہ میں دریافت کیا تو حضرت نے فرمایا : ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے غدیر کے دن کے فرمایا کہ خدایا ! من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ؛ میں جس کا جس مولا ہوں علی اس کے اس کے مولا ہیں ، جز ان مختصر تعداد کے جن لوگوں کو خداوند متعال نے اس راہ ولایت و امامت اور رسول کی ہدایت کے راستہ پر باقی رکھا ، باقی افراد اس راہ سے منحرف ہوگئے اور انہوں نے حضرت کی نصیحتوں پر عمل نہیں کیا ۔
جناب میثم کے بیٹے صالح اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن میرے والد بازار میں تھے کہ امام علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے «اصبغ بن نباته» اور انہوں نے تعجب خیر انداز میں کہا کہ اے میثم ہم نے امیرالمومنین علی ابن طالب علیہ السلام سے تعجب انگیز کلام سنا ہے
جناب میثم نے سوال کیا کہ کیا سنا ہے ؟
اصبغ بن نباته نے کہا: میں نے سنا ہے کہ حضرت علیہ السلام نے فرمایا « اھل بیت علیھم السلام کا کلام اور بیان نہایت ہی سنگین اور دشوار ہے ، اسے مقرب بارگاہ فرشتوں ، صاحب شریعت انبیاء الھی یا مومن بندوں کہ جن کا دل ایمان الھی سے مملو ہے اور انہیں ازمایا جاچکا ہے ، کے سوا کوئی نہیں سمجھ نہیں سکتا نیز اسے برداشت نہیں کرسکتا ۔»
میثم فورا حضرت امام علی علیہ السلام کی خدمت میں پہونچے اور حضرت سے «اصبغ بن نباته» کے وسیلہ سنے ہوئے اپ بیان کے سلسلہ میں سوال کیا اور اس کی تشریح کی درخواست کی تو حضرت علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا : بیٹھو ! اے میثم ! کیا ہر عالم ہر علم کو برداشت کرسکتا ہے اور اس کے بوجھ کو اٹھا سکتا ہے ؟ خداوند متعال نے جب فرشتوں کو خطاب کر کے کہا کہ " انی جاعل فی الارض خلیفہ" میں زمین پر خلیفہ معین کرنا چاہتا ہوں تو فرشتوں نے کہا کہ خدایا کیا ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو فساد اور خونریزی برپا کرے ؟ جواب ملا " انی اعلم مالا تعلمون" ۔
پھر حضرت علیہ السلام نے حضرت موسى و خضر علیھما السلام کی داستان اور کشتی میں سوراخ کئے جانے نیز جوان کو مارنے کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا: پیغمبر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے غدیر کے دن میرے ہاتھوں کو تھاما اور فرمایا : « خداوندا ! میں جس کا مولا تھا علی اس کے مولا ہیں » مگر کچھ گنے چنے افراد کے سوا کہ جنہیں خداوند متعال نے ایمان پر باقی رکھا کتنے لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی اس فرمائش اور اپ کے اس کلام کو سمجھا، قبول کیا اور اس عمل کیا ؟ لہذا تمہیں مبارک ہو کہ تم نے جو کچھ بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے سنا اس پر ایمان لائے ، اس پر پابند رہے اور اس پر عمل کیا ، خداوند متعال نے تمہیں وہ فضلیت عطا کی ہے جو فرشتوں اور رسولوں کو نہیں دی ہے ! لہذا بغیر کسی خوف اور شک و شبہ کئے ہماری عظمت و بلندی کو لوگوں کے سامنے بیان کرو ۔
Add new comment