گذشتہ سے پیوستہ
ہم نے اپنی پچھلی تحریر میں یہاں تک بات کی تھی کہ پیغمبر نے اپنی بعثت کی ابتداء ہی میں اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا اور جوں جوں اپ کا اخری وقت قریب اتا رہا اپ اپنی غیر موجودگی میں مدینہ میں کہ جو اس زمانہ کا دار الحکومت تھا کسی نہ کسی اپنے مورد اعتماد کو اپنا نائب مقرر کر کے جاتے جو حضرت (ص) غیر موجودگی میں تمام امور کی دیکھ بھال کرتا ۔
اور ہم اپنی گذشتہ تحریر کی جانب پلٹتے ہیں کہ دعوت ذوالعشیرہ میں جب تین دن تک کوئی بھی نبی (ص) کی حمایت میں نہ اٹھا اور فقط و فقط علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات گرامی ہی اٹھتی رہی تو نبی (ص) نے اپنی وصایت اور خلافت انہیں سونپ دی ۔ (۱) کیوں کہ علی علیہ السلام کی وہ ذات گرامی ، وہ پاک و پاکیزہ اور خدا کا دلداہ ہے جس نے چشم زدن کے لئے بھی شرک اختیار نہیں کیا اور کبھی بت کو سجدہ نہ کیا ، علی ابن ابی طالب علیہ السلام اس ذات کا نام ہے کہ جس نے اسلام کی ترقی میں پر طرح کی قربانی پیش کی ، ہر میدان جنگ میں سب سے اگے رہے ، علی (ع) کی ذات وہ ذات ہے جس کا عِلم رسول خدا (ص) کا سرچشمہ عِلم سےعبارت ہے ، علی علیہ السلام کی ذات وہ ذات ہے جس کا فیصلہ عالی ترین قضاوت شمار کیا جاتا ہے ۔ (۲)
علی علیہ السلام کی ذات گرامی وہ ذات گرامی ہے جسے لوگ خوب جانتے اور پہچانتے ہیں ، لوگوں نے بارہا و بارہا دیکھا ہے کہ انہوں نے اسلام کی بقا اور حفاظت میں کس قدر جانفشانیاں کی ہیں ۔
حج کا فریضۃ آخر کو پہنچا ، لوگ اپنے اپنے شھروں کی سمت عازم سفر ہوئے کہ ناگاہ پیغمبر اسلام (ص) کے منادی کی اواز صحرائے حجاز میں گونجی ، مسلمانوں ٹھرجاو ، مسلمانوں کو ٹھرنے کا حکم دیا گیا تھا کیوں کہ وحی کا فرشتہ رسول خدا کے لئے یہ ایت لیکر نازل ہوا تھا " يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ " اے رسول ! پہنچا دیجئے جو کچھ بھی اپ پر خدا کی جانب سے نازل کیا گیا کہ اگر اپ نے ایسا نہ کیا تو گویا کار رسالت انجام ہی نہیں دیا ہے اور خدا اپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ۔ (۳)
جس لب و لہجہ میں خدا نے اپنے پیغمبر (ص) کو مخاطب قرار دیا تھا وہ صرف علی علیہ السلام کی خلافت کا سرکاری اعلان ہی تھا ، جس کے بارے میں پیغمبر اسلام کو یہ اندیشہ تھا کہ کہیں مسلمانوں کے درمیان انتشار و اختلاف کی آگ شعلہ ور نہ ہوجائے ، لہذا پیغمبر اسلام (ص) ایک مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھے ، ایت نے نازل ہوکر اس مناسب وقت کا تعیین فرمایا لہذا تمام لوگوں کو بے اب و گیاہ اور تپتے صحرا میں روکا گیا جس کا نام غدیر خم تھا ، تاکہ اسلام کی روح خلافت اور جانشینی کے مسئلہ کو با قائدہ طو سے واضح اور اعلان کردیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: تاریخ طبری ، ج ۳ ، ص ۱۱۷۳ و ۱۱۷۱ ۔
۲: فضائل الخمسہ ، ج ۱ ، ص ۱۸۶ و ۱۸۷ ۔
۳: قران کریم ، سورہ مائدہ ، ایت ۶۷ ۔
Add new comment