ہجرت کا دسواں سال تھا اور حج کا موسم اور حجاز کا میدان ایک کثیر اجتماع پر گواہ تھا ، رسول کی امت ایک نعرہ کے ساتھ اپنے مقصد کی جانب رواں دواں تھی ، اس سال حج کے موقع پر کچھ اور ہی شوق و اشتیاق تھا ، مسلمان جلدی جلدی منزلوں کو طے کرتے ہوئے خود کو مکہ اور بیت اللہ پہونچا رہے تھے ، لبیک اللھم لبیک کی صدائیں مکہ کے صحراوں سے بھی سنائی دے رہی تھیں ، یکے بعد دوسرا قافلہ شھر سے نزدیک ہورہا تھا ، تمام حاجی ایک طرح کا لباس احرام پہنے ہوئے میں اٹے ہوئے انسو بہاتے ہوئے خود کو پروردگار کے حرم امن و امان میں پہونچا رہے تھے ، اور اس گھر کا جس کو توحید کے علمبردار جناب ابراھیم علیہ السلام نے اپنے مقدس ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا طواف کر رہے تھے ۔
فرید وجدی نے سن دس ھجری کے حاجیوں کی تعداد ۹۰ ھزار بتائی ہے لیکن بعض مورخین کے وسیلہ یہ تعداد ایک لاکھ چوبیس ھزار تک بیان کی گئی ہے ۔
پیغمبر اسلام دیکھ رہے تھے کہ مسجد الحرام حاجیوں سے چھلک رہی ہے اور سب انما الاخوہ کی تصویر بنے ہوئے فرشتوں کی کی طرح عبادت اور دعاوں میں مشغول ہیں ، لیکن کبھی کبھی غم و اندوہ کی ایک لہر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے رخ اقدس پر نمودار ہوتی اور خوشی و انبساط کو کم کردیتی ۔
انہیں خوف ہے کہ ان کے انتقال کے بعد یہ اجتماع کہیں پراکندہ نہ ہوجائے اخوت و اتحاد کی روح انتشار و افراق کا شکار نہ ہوجائے اور لوگ پھر اپنی پچھلی حالت اور دور جاہلیت کی جانب نہ پلیٹ جائیں ۔
پیغمبر اسلام خوب جانتے تھے کہ ملت اسلامیہ ایک معصوم اور عالم رہبر کی محتاج ہے ورنہ ان کی تمام زحمتیں اور اتنے دنوں کی طاقت فرسا کوششیں سب بیکار ہوجائیں گی ۔
اس بناء پر پیغمبر اسلام جب سفر پر لے جاتے یا جنگ کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے اگر چہ کتنے ہی مختصر دنوں کے لئے جاتے ہوں مگر ان چند دنوں کے لئے کسی نہ کسی کو ذمہ دار اور امانتدار بنا کر جاتے اور مدینہ والوں کو ازاد و بے سرپرست نہیں چھوڑتے ۔ (۱)
اس بناء پر کیونکر یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ مہربان اور دردمند پیغمبر نے اپنے بعد امت کی رھبری کو حوادث کے حوالہ کردیا ، جبکہ پیغمبر اسلام کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس مقام اور منزلت کے لائق کون ہے اور قبائے خلافت کس کی قامت پر صحیح اترتی ہے وہ وہی ہے جس قریش کے سربراوردہ افراد اور پیغمبر اسلام کے رشتہ دار اسلام کی دعوت کی خاطر ایک جگہ جمع ہوئے تھے تو اس انحضرت نے اپنی خلافت اور جانشینی کے لئے مںصوب کیا تھا ۔ (۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: تاریخ ابن اثیر، ص ۲۴۲، ۲۷۸، ۲۱۶ ۔
۲: تاریخ طبری ، ج ۳ ، ص ۱۱۷۳ و ۱۱۷۱
Add new comment