عقاید
خلاصہ: امام کی مثال طلوع کرتے ہوئے سورج کی طرح ہے، سورج طلوع کی حالت میں سب چیزوں کو روشن کردیتا ہے، سورج کی بلندی اس قدر ہے کہ اس تک کوئی ہاتھ نہیں پہنچ سکتا کہ اس میں تبدیلی لاسکے اور نہ نگاہیں اسے دیکھ سکتی ہیں کہ اس کی حقیقت کا ادراک کرسکیں، امام کی مثال بھی یہی ہے۔
خلاصہ: امام چونکہ معصوم ہے تو اللہ تعالی کے حلال و حرام کو اسی طرح بیان اور جاری کرتا ہے جیسا اللہ نے حکم دیا ہے اور اللہ کی حدود کو جاری کرتا اور اللہ کے دین کی حفاظت کرتا ہے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ کی طرف اچھے طریقہ سے بلاتا ہے۔
خلاصہ: دین چونکہ اللہ کی طرف سے ہے تو امام کو بھی اللہ کی طرف سے منصوب ہونا چاہیے تا کہ دین الہی کو زمین پر نافذ کرسکے، امام کیونکہ دین کے ہر مسئلہ سے آگاہ ہے تو دین کی باگ ڈور اللہ نے اسی کے ہاتھ میں دی ہے۔
خلاصہ: امامت کوئی عوامی مقام نہیں ہے جس کے لئے لوگ خود کسی کو منتخب کرلیں، بلکہ امامت اللہ تعالی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلافت ہے، لہذا صرف اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو امام بنائے۔ بنابریں لوگوں کا اس بارے میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یقیناً ان کا انتخاب غلط ہوگا جیسا کہ نسل انسانیت اپنے انتخاب کا نتیجہ ہر دور میں دیکھتی آرہی ہے جو سراسر ظلم و فساد ہے۔
خلاصہ: موت کی یاد انسان کو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی تک پہونچاتی ہے۔
خلاصہ: ہر موجود کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے، خدا نے آسمان اور زمین کو حق کے ساتھ خلق کیا ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت پوشیدہ ہے۔
خلاصہ: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) امتحانات کے بعد اور چار مقامات کے بعد مقام امامت پر اللہ کی طرف سے فائز ہوئے، لہذا مقام امامت پر اچانک نہیں پہنچا جاسکتا اور پھر جس کو اللہ چاہے امام بنائے، کوئی اپنی کوشش سے بھی امام نہیں بن سکتا۔
خلاصہ: امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے ظھور کے بعد خدا کا وعدہ پور ہوگا۔
خلاسہ: پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ غار میں جوبھی تھے قرآن غم اور پریشانی کو ایک نقطۂ صعف کے طور پر بیان کررہا ہے۔