خلاصہ: ہر موجود کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے، خدا نے آسمان اور زمین کو حق کے ساتھ خلق کیا ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت پوشیدہ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جنت اور جھنم انسان کے ان اعمال کا نتیجہ ہے جسے اس نے اپنے اختیار سے انجام دیا ہے جس کے بارے میں خداوند متعال رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خطاب کرتے ہوئے اس طرح فرمارہا ہے: « قُلْ أَ ذلِکَ خَیْرٌ أَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتی وُعِدَ الْمُتَّقُونَ کانَتْ لَهُمْ جَزاءً وَ مَصیرا[سورۂ فرقان، آیت:۱۵] پیغمبرآپ ان سے پوچھئے کہ یہ عذاب زیادہ بہتر ہے یا وہ ہمیشگی کی جنت جس کا صاحبان تقویٰ سے وعدہ کیا گیا ہے اور وہی ان کی جزا بھی ہے اور ان کا ٹھکانا بھی»، خداوند متعال نے اس آیت میں تقوے کی جزاء جنت کو قرار دیا ہے، یہ آیت امام علی(علیہ السلام) کی اس حدیث کی روشنی میں ہمارے لئے پوری طرح سے واضح ہوجاتی ہے جس میں امام(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہے: «اِنَّ التَّقْوى مُنْتَهى رِضَى اللَّهِ مِنْ عِبادِهِ؛ خدا بندے سے پورے طریقے سے اس وقت راضی ہوتا ہے جو وہ تقوی اختیار کرتا ہے»[تصنيف غرر الحكم و درر الكلم، ص۲۶۹]، اس حدیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب اللہ بندے سے راضی ہوجاتا ہے تو وہ اسے جنت بھیج دیتا ہے کیونکہ جنت ان لوگوں کے لئے ہے جن سے اللہ راضی ہے، خدا ہم سب کو اس کی رضایت حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
*تميمى آمدى، عبد الواحد بن محمد، دفتر تبليغات، ایران، قم، ۱۳۶۶ش۔
Add new comment