عقاید
خلاصہ:قیامت کی حقیقت کو سمجھنا انسان کی فکر سے پرے ہے اور قیامت کو کوئی نہ سمجھ سکتا اگر خدا اسکی صفات اپنی کتاب قرآن میں اور اہلبیت علیھم السلام تفاسیر میں بیان نہ فرماتے۔
خلاصہ: حکومتوں کے مختلف شرائط ہوتے ہیں، جو حکومت نظامِ ولایت کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہو، اس کے بھی کچھ شرائط اور صفات ہیں، ان میں سے بعض کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
خلاصہ: ولایت اور حکومت، اللہ تعالیٰ کا حق ہے، لہذا جسے اللہ اذن دے وہی شخص حکومت کرسکتا ہے۔
خلاصہ: خلافت، امامت اور حکومت کے منصب کو جس کے لئے اللہ تعالیٰ مقرر کرے، صرف وہی اسے سنبھالنے کا حقدار ہے، اگر کوئی اللہ کی اجازت اور اذن کے بغیر ایسے منصب کا دعویدار بن جائے تو وہ غاصب ہے۔
خلاصہ: ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے فضائل و کمالات کو شمار نہیں کیا جاسکتا، مختصر معرفت کے لئے چند صفات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
خلاصہ: امام کی معرفت حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنے کی اس قدر اہمیت ہے کہ قرآن، احادیث اور عقل کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ امام کی پہچان ضروری ہے۔
خلاصہ: تاریخ میں غور کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کی فرمانبرداری نہ کرنے والے بعض لوگ ایسے تھے جو غور کیے بغیر دشمن کا ساتھ دیتے تھے، ان کی گمراہی کی وجہ اندھادھند تقلید تھی، جبکہ کچھ غور کرلیتے تو ان کے لئے حق و باطل واضح ہوجاتا۔
خلاصہ: عقائد کو قرآن اور سنّت سے تحقیق کے ذریعے حاصل کرنا چاہیے نہ کہ نقلید کے ذریعے، کیونکہ اگر عقائد کی بنیاد تقلید ہو تو شخصیات کی گمراہی سے ان کا پیروکار بھی گمراہ ہوجائے، اس لیے وہ پیروکار خود، حق اور باطل کو نہیں جانتا۔
حضرت علی(ع) کے نزدیک ملک وبادشاہی جو حق کو قائم کرنے اورباطل کو زائل کرنے کے لئے نہ ہوتو وہ دنیاکی پست ترین چیزوں سے بھی زیادہ پست تھی، یہی سبب ہے حضرت علی(ع)کے نزدیک اس حکومت کی قیمت جو عدل وانصاف قائم کرنے میں ناکام ہو ان کی پھٹی ہوئی جوتیوں سے بھی کمتر تھی، جس میں سماج کے ستم زدہ اور مظلوموں کو انصاف نہ مل سکے، اسی تناظر میں مندرجہ ذیل مختصر توشتہ خود امیرالمؤمنین کی زبانی ملاحظہ فرمائیں کہ آپ کی خلافت ظاہری سے پہلے دین کی حالت کیا تھی۔
یقیناً پیغمبر اکرم[ص] اور انکے اہلبیت[ع]کشتی نجات اور ہدایت کے منارے ہیں۔