خلاصہ: امام کی مثال طلوع کرتے ہوئے سورج کی طرح ہے، سورج طلوع کی حالت میں سب چیزوں کو روشن کردیتا ہے، سورج کی بلندی اس قدر ہے کہ اس تک کوئی ہاتھ نہیں پہنچ سکتا کہ اس میں تبدیلی لاسکے اور نہ نگاہیں اسے دیکھ سکتی ہیں کہ اس کی حقیقت کا ادراک کرسکیں، امام کی مثال بھی یہی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "الْإِمَامُ كَالشَّمْسِ الطَّالِعَةِ لِلْعَالَمِ وَ هِيَ بِالْأُفُقِ بِحَيْثُ لَا تَنَالُهَا الْأَيْدِي وَ الْأَبْصَارُ"، "امام، کائنات پر طلوع کرتے ہوئے سورج کی طرح ہے، حالانکہ وہ (سورج) افق پر ہے اس طرح سے کہ اس تک ہاتھ اور نگاہیں نہیں پہنچ سکتیں"۔ [عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج1، باب 20، ص218]۔ ان فقروں سے چند نکتے ماخوذ ہوتے ہیں:
۱۔ امام کی مثال سورج کی طرح ہے اور سورج کی بھی وہ حالت جب طلوع کرتا ہے نہ کہ جب غروب کرتا ہے۔ طلوع کیا ہوا سورج اپنے سامنے والی تمام جگہوں کو اپنے نور سے روشن کردیتا ہے۔امام بھی سب لوگوں کی عقلوں کو نورانی کرتے ہوئے انہیں ہدایت کرتا ہے۔
۲۔ جیسے سورج نیچے نہیں ہے بلکہ افق کی بلندی پر ہے اور اس کے باوجود ہر جگہ کو روشن کردیتا ہے، اسی طرح امام کی حقیقت اور مقام اتنا بلندی پر ہونے کے باوجود لوگوں تک اپنی ہدایت کی نورانیت کو پہنچا کر ان کی اللہ کے راستہ کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ کوئی شخص یہ نہ سمجھ لے کہ امام کا بدن مبارک کیونکہ ہمارے قریب ہے اور اسے چھوا جاسکتا ہے تو اس کو چھونے سے امام کی حقیقت اور مقام کو سمجھ لیا ہے، ہرگز نہیں، جیسے سورج خود بلندی پر ہے اور اس کا نور نیچے آتا ہے، امام بھی اسی طرح ہے۔
۳۔ سورج افق اور بلندی پر ہے، لوگ اس کی روشنی سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں، لیکن سورج تک پہنچ کر اس پر غلبہ نہیں پاسکتے، امام کا حقیقی مقام اس قدر بلند ہے کہ لوگوں کی رسائی اس بلند مقام تک ہرگز نہیں ہوسکتی اور امام پر غالب نہیں ہوسکتے، نہ کوئی شخص امام کو امر و نہی کرسکتا ہے اور نہ اسے عزل و نصب کرسکتا ہے۔ تو کہاں لوگ اور کہاں امام کا عظیم مقام؟!
۴۔ سورج، روشنی کی شدت سے اس طرح جگمگا رہا ہے کہ اسے نگاہیں دیکھنے سے عاجز ہیں، اسی طرح امام جگمگاتے ہوئے سورج کی طرح ہے کہ اس کے مقام کے ادراک سے ساری مخلوق عاجز ہے۔
حوالہ:
(عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج1، باب 20، ص218، شیخ صدوق، نشر جہان، تہران، 1378ش)
Add new comment