عقاید
خلاصہ: عقائد کو قرآن اور سنّت سے تحقیق کے ذریعے حاصل کرنا چاہیے نہ کہ نقلید کے ذریعے، کیونکہ اگر عقائد کی بنیاد تقلید ہو تو شخصیات کی گمراہی سے ان کا پیروکار بھی گمراہ ہوجائے، اس لیے وہ پیروکار خود، حق اور باطل کو نہیں جانتا۔
حضرت علی(ع) کے نزدیک ملک وبادشاہی جو حق کو قائم کرنے اورباطل کو زائل کرنے کے لئے نہ ہوتو وہ دنیاکی پست ترین چیزوں سے بھی زیادہ پست تھی، یہی سبب ہے حضرت علی(ع)کے نزدیک اس حکومت کی قیمت جو عدل وانصاف قائم کرنے میں ناکام ہو ان کی پھٹی ہوئی جوتیوں سے بھی کمتر تھی، جس میں سماج کے ستم زدہ اور مظلوموں کو انصاف نہ مل سکے، اسی تناظر میں مندرجہ ذیل مختصر توشتہ خود امیرالمؤمنین کی زبانی ملاحظہ فرمائیں کہ آپ کی خلافت ظاہری سے پہلے دین کی حالت کیا تھی۔
یقیناً پیغمبر اکرم[ص] اور انکے اہلبیت[ع]کشتی نجات اور ہدایت کے منارے ہیں۔
خلاصہ: اس مضمون میں توحید کی پہچان اور شرک و غلو سے بچنے کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے، شرک اور غلو جو دونوں باطل راستے ہیں ان کی مذمت قرآن کریم سے واضح کی جارہی ہے۔
خلاصہ: عموماً لوگ موت کی یاد سے غفلت کرتے ہیں، جبکہ موت کی یاد میں مختلف برکتیں پائی جاتی ہیں، جب انسان ان برکتوں کی طرف غور کرے تو موت کو یاد کرنے کی اہمیت کو سمجھ جائے گا۔
خلاصہ: تقلید کا تعلق شرعی اور فقہی مسائل سے ہے اور اعتقادی مسائل میں تقلید نہیں کی جاسکتی، بلکہ تحقیق کرنی چاہیے۔
خلاصہ: قرآن نے احکام کو کلی طور پر بیان کیا ہے، اس کی تشریح اور تفسیر کی ذمہ داری رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے سپرد کردی ہے۔
خلاصہ: آیتِ اکمال دین اور اتمامِ نعمت پر غور کرتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دین اور نعمت تب مکمل ہوئے جب حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی ولایت کا اعلان ہوگیا، لہذا اعمال اور عبادات کی قبولیت کی بنیاد اور شرط ولایت ہے۔
خلاصہ: غدیر خم کے میدان میں نازل ہونے والی آیت اکمالِ دین میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی مسلمانوں سے ناامیدی کی خبر دیدی، اس ناامیدی کا تعلق ولایت سے ہے، کیونکہ حضرت علی (علیہ السلام) کی ولایت کے اعلان کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ہے، لہذا اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ مسلمان لوگ کس طریقے سے کافروں کی ناامیدی کو مزید جاری رکھیں۔
خلاصہ: حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی ولایت کا غدیر خم کے دن اعلان اس قدر واضح ہے کہ اہلسنت نے اس حقیقت کے بارے میں کئی روایات نقل کی ہیں، ان میں سے اس مضمون میں اختصار کے مدنظر صرف دو روایات نقل کی جارہی ہیں۔