خلاصہ: انسان کی شخصیت، انسانیت کا طرہ امتیاز ہے جس کے باعث انسان کا حیوان سے فرق ہے۔
انسان کے دو پہلو ہیں: شخص اور شخصیت۔ شخص وہی جسم اور ظاہری خصوصیات اور شمائل ہیں، لیکن شخصیت، انسان کی روح اور روحانی صفات اور ملکات ہیں۔ انسان کا "شخص" رحم میں بنتا ہے اور انسان کو اس میں اختیار نہیں ہے، سورہ آل عمران کی آیت ۶ میں ارشاد الٰہی ہے: "هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ"، "وہ (خدا) وہی ہے جو ماں کے پیٹ میں جس طرح چاہتا ہے، تمہاری صورتیں بناتا ہے"۔
لیکن انسان کی شخصیت دنیا میں تشکیل پاتی ہے اور انسان اسے بنانے اور پروان چڑھانے یا تباہ و برباد کرنے پر اثرانداز ہے اور اسے بنانے کی کیفیت میں انسان کو اختیار ہے۔
انسان کے شخص اور جسم، روح اور شخصیت کا آپس میں اس لحاظ سے بھی فرق ہے کہ ان کی حرکت کا رُخ اور مقصد مختلف ہیں۔ انسان کا شخص، مادی ہے اور ہمیشہ مادیات اور کھانے پینے کی طرف مائل رہتا ہے، لیکن شخصیت اور روح، ملکوتی ہے اور ہمیشہ معنویات اور معنویات سے بہرہ ور ہونے کی طرف مائل رہتی ہے۔
بچہ کی زندگی نباتی اور حیوانی ہوتی ہے، مگر انسانیت اور شخصیت کے فروغ کی صرف اس میں قوت پائی جاتی ہے، یعنی انسانیت کا بیج اور صلاحیت اس کے وجود میں بویا گیا ہے کہ اگر ماحول اور تربیت کی صورتحال مناسب ہو تواس صلاحیت میں نکھار آئے گا، لیکن اگر نامناسب حالات کا سامنا کرے تو نہ صرف ان انسانی صلاحیتوں میں نکھار نہیں آئے گا، بلکہ وہ صلاحیتیں حیوانیت میں ڈھل جائیں گی۔ وہ صورت اور ظاہری طور پر انسان ہوگا، مگر سیرت اور باطن کے لحاظ سے حیوان ہوگا، کیونکہ انسان اور حیوان میں فرق یہ ہے کہ حیوان کی حقیقت اس کی وہی حیوانیت ہے جس حالت میں وہ پیدا ہوا ہے، لیکن انسان پیدائش کے وقت انسانیت کی صلاحیت اور شخصیت کی بلندی کا حامل ہوتا ہے، مگر اسی وقت اس کی انسانیت ظاہر نہیں ہوتی، بلکہ اگر اس میں انسانی اقدار نکھر جائیں اور وقوع پذیر ہوجائیں تو انسانیت کے بلند مقام پر فائز ہوجائے گا۔
انسان کی یہی بلند شخصیت ہے جو عہد، ذمہ داریوں اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کی پابند ہے اور اگر انسان میں انسانیت پروان نہ چڑھے تو انسان بہت بڑے خسارے کا شکار ہوا ہے۔ یہ خسارہ موت، قبر اور قیامت میں ظاہر ہوجائے گا اور انسان ناقابل بیان حسرت، ندامت اور پشیمانی میں ڈوب جائے گا۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* اقتباس از: آسیب شناسی شخصیت زن، محمد رضا کوہی، ص۱۷۔
Add new comment