انسان کی انسانیت کی ابتدا

Wed, 05/06/2020 - 10:44

خلاصہ: انسان کا ظاہر اگرچہ دوسرے انسانوں کی طرح ہے، لیکن حقیقت میں جو انسان کی انسانیت ہے، اس کا معیار باطنی امور ہیں، اس مضمون میں بتایا جارہا ہے کہ انسان کی انسانیت کی ابتدا کہاں سے ہے۔

انسان کی انسانیت کی ابتدا

انسان کی انسانیت اس جگہ سے شروع ہوتی ہے جب غفلت سے نکلتے ہوئے شعور اور پہچان کے مرحلہ میں داخل ہوجائے اور متوجہ ہوجائے کہ اس کا کوئی انجام ہے اور اس کے سامنے مختلف راستے ہیں اور ضروری ہے کہ ان راستوں میں سے صحیح راستے کو پہچانے اور ان پر چلے، لہذا انسان جب تک غفلت سے نہ نکلے تو درحقیقت تب تک انسانیت کی حدود میں داخل نہیں ہوا، بلکہ گمراہی کے راستے کو طے کررہا ہے اور حیوان سے زیادہ پست ہے۔
قرآن کریم نے غفلت کو دوسری گمراہیوں کی جڑ بتایا ہے۔ سورہ روم کی آیت ۷ میں ارشاد الٰہی ہے: "يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ"، "یہ لوگ صرف دنیاوی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت سے بالکل غافل ہیں"۔
وہ اسی دنیاوی زندگی جو حیوان اور انسان کے درمیان مشترکہ ہے اور مادّی لذتوں کا ادراک کرتے ہیں اور اس کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھتے۔ سورہ نمل کی آیت ۶۶ میں ارشاد الٰہی ہے: "بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْهَا بَلْ هُم مِّنْهَا عَمُونَ"، "بلکہ آخرت کی منزل میں رفتہ رفتہ انہیں پورا علم ہوگا۔ بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں بلکہ یہ اس کی طرف سے بالکل اندھے ہیں"۔
انہیں اس آخرت کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے جس میں اخلاقی اقدار نے وقوع پذیر ہونا ہے، وہ صرف لاعلمی میں نہیں ہیں بلکہ شک کی حالت میں ہیں، بلکہ اندھے ہیں، کیونکہ شک بھی اپنے طور پر ایک حقیقت ہے، جیسا کہ انسان کو ایک مسئلہ کی دونوں طرف پر توجہ ہوجاتی ہے، لیکن اس کے لئے ان دو طرف کا باہمی تعلق ثابت نہیں ہوتا اور وہ شک میں رہتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مسئلہ بالکل اسے درپیش ہی نہیں ہوتا کہ اس کے بارے میں شک کرے یا علم ہوجائے یا حتی اس بارے میں کوئی سوال اس کے ذہن میں اٹھے۔ اس آیت میں مدنظر افراد کی کیفیت، آخرت کے بارے میں اس طرح ہوتی ہے۔
لہذا اس غفلت اور اندھیرے سے نکلنا اور اس حقیقت کی طرف متوجہ ہوجانا کہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے علاوہ بھی کچھ حقائق پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں انسان ذمہ دار ہے اور اسے وہ حقائق اور ان کے لوازمات تسلیم کرنے چاہئیں ، کیونکہ یہ انسان کی طاقت اور اختیار میں ہے کہ انسان نیک اعمال اور برے اعمال، حق اور باطل، دنیا اور آخرت کے حقائق اور قیامت کے حساب و کتاب کو سمجھ کر اس کے مطابق عمل کرے۔

* اصل مطالب ماخوذ از: اخلاق در قرآن، ج۱، ص۱۶۵، آیت اللہ مصباح یزدی۔
آیات کا ترجمہ: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
10 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 35