شکر انسانی فطرت کا تقاضا، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کی تشریح

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کی تشریح کرتے ہوئے شکر کی بحث کے متعلق اس بات کی وضاحت کی جارہی ہے کہ شکر کرنا انسان کی فطرت کا تقاضا ہے اور کیونکہ لوگ اللہ کی نعمتوں کے پہنچنے کا وسیلہ بنتے ہیں تو ان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے، ورنہ جو شخص لوگوں کا شکریہ نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتا۔

شکر انسانی فطرت کا تقاضا، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کی تشریح

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے یہ چھٹا مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) جب اپنے بابا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں عزت و عظمت کے ساتھ داخل ہوئیں تو گریہ کرنے لگیں، لوگ بھی آپؑ کے گریہ کی وجہ سے رونے لگے، جب لوگ خاموش ہوگئے تو آپؑ نے خطبہ شروع کرتے ہوئے اللہ کی حمد و ثناء کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوات بھیجی، یہ سن کر لوگ دوبارہ رونے لگ گئے، جب انہوں نے خاموشی اختیار کی تو آپؑ نے دوبارہ اپنا خطبہ آغاز کیا، راوی کا کہنا ہے: "فَقالَتْ: اَلْحَمْدُلِلّهِ عَلی ما أنْعَمَ وَ لَهُ الشُّكْرُ عَلی ما أَلْهَمَ"…[1]، "آپؑ نے فرمایا: ساری حمد (تعریف) اللہ کے لئے ہے ان نعمتوں پر جو اس نے عطا فرمائیں اور صرف اس کا شکر ہے اس (اچھی سمجھ) پر جو اس نے الہام کی (دل میں ڈالی) "…۔ حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) نے اس خطبہ کے ابتدائی فقروں میں اللہ تعالی کا شکر کیا ہے، لہذا اِس مضمون میں جناب سیدہ کونین (سلام اللہ علیہا) کے اس جملہ" وَ لَهُ الشُّكْرُ عَلی ما أَلْهَمَ"، " اور صرف اس کا شکر ہے اس (اچھی سمجھ) پر جو اس نے الہام کی (دل میں ڈالی)" کے سلسلہ میں گفتگو کی جارہی ہے، البتہ اِس مضمون میں حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کی مناسبت سے اس موضوع پر گفتگو ہورہی ہے کہ شکر انسانی فطرت کا تقاضا ہے، اور الہام کے سلسلہ میں اگلے مضامین میں گفتگو ہوگی۔
شکر کی اہمیت: شکر اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ بعض علماء نے شکر کو عقلی واضحات (بدیہیات) میں سے شمار کیا ہے اور شکر کو اللہ کی پہچان کے واجب ہونے کی دلیل سمجھا ہے، یعنی نعمتیں کیونکہ اللہ تعالی کی طرف سے ہیں تو نعمت دینے والے کا شکر ادا کرنا عقلی طور پر ضروری ہے، اور دوسری طرف سے جس کا شکر ادا کرنا ہو اس کی پہچان اور معرفت حاصل کرنا چاہیے تا کہ اس کا شکر بہتر سے بہتر ادا کیا جاسکے۔
شکر کی ادائیگی میں فطری رغبت: اللہ تعالی نے انسانوں کی فطرت میں یہ چیز رکھی ہے کہ انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ نعمت دینے والے کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور انسان اس کے سامنے اپنے آپ کو مقروض سمجھتا ہے اور اس فطری کیفیت کی کئی دوسری مثالیں بھی تلاش کی جاسکتی ہیں۔ اگر انسان ان فطری امور کے بارے میں کوتاہی اور سستی کرے تو وہ فطری چیز رفتہ رفتہ کمزور ہوجائے گی، مثال کے طور پر جو لوگ منشیات کا استعمال کرتے ہیں، ابتداء میں تو منشیات کے عادی نہیں تھے، جب پہلی بار استعمال کیا تو نفرت کرتے ہوئے کھانسی بھی کی، لیکن آہستہ آہستہ اس سے یوں دل لگا لیا کہ اب اگر استعمال نہ کریں تو تکلیف محسوس ہوگی، یہ ہے اللہ کی عطاکردہ فطرت کو خراب کرنا۔ پروردگار نے یہ فطرت عطا کی تھی کہ جب سگریٹ کا دھواں آدمی کے پھیپھڑوں تک پہنچے تو نفرت کرتا ہے اور کھانسی کرتا ہے، لیکن اس نے اس فطرت کو خراب کرکے اسے ناکارہ بنادیا، بلکہ اس کو بالکل الٹ کردیا۔ اسی طرح بعض اوقات انسان کی خودپسندی، ہواوہوس اور لذت پسندی کا حد سے بڑھ جانا باعث بنتا ہے کہ شکرگزاری اور قدردانی والی فطرت کا چراغ بجھ جائے اور اس فطرت سے لاپرواہ ہوجائے۔
فطری امور کو طاقتور بنانا: فطرت کو بجھانے کے مدمقابل، ایسے اسباب بھی پائے جاتے ہیں جن کے ذریعے سے فطری امور کو طاقتور کیا جاسکتا ہے۔ وہ ہیں "بیرونی اسباب" جن کے ذریعے سے طاقت بڑھائی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر جب کھانے کی خوشبو انسان کو پہنچتی ہے تو بھوک کی حس طاقتور ہونے لگتی ہے، یہ حس اندرونی چیز ہے، لیکن کھانے کی خوشبو اسے طاقت دیتی ہے، خوبصورت چہرہ کو دیکھنے کی خواہش انسان کے اندر پائی جاتی ہے، اگر انسان اپنی آنکھ کا خیال نہ رکھے اور کئی بار نامحرموں کی طرف دیکھے تو یہ خواہش طاقتور ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے شیطان سے مقابلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے، یہ بیرونی سبب ہے جس کی وجہ سے اندرونی حس کو طاقت مل گئی۔ انسان کو کوشش کرنا چاہیے کہ اچھے کاموں کو طاقتور کرنے والے بیرونی اسباب کو فراہم کرے اور دوسری طرف سے گناہ کے اسباب کو طاقتور بنانے سے پرہیز کرے، بنابریں نامحرم پر انسان کی نظر جتنی کم پڑے گی اتنے گناہ کے اسباب کمزور ہوجائیں گے اور اگر پختہ ارادہ کرلے کہ نامحرم کی طرف بالکل نہیں دیکھوں گا چاہے عام زندگی میں ہو یا نیٹ اور مبائل کی دنیا میں، تو رفتہ رفتہ اِس گناہ کے اسباب انتہائی کمزور ہوجائیں گے، یہاں تک کہ اگر نظر پڑ بھی جائے تو ضمیر شدت سے مذمت کرے گا اور آئندہ خیال رکھنے کے ارادہ کو مضبوط کردے گا۔ دوسرے گناہوں سے بھی اسی طریقہ سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اب اصل بات یہ ہے کہ مالک کائنات نعمتیں عطا کرنے سے ہمارے اندر شکر کے اسباب اور رغبت فراہم کرتا ہے۔ گویا اللہ تعالی اپنے عمل اور نعمت دینے کے ذریعے ہم سے اپنا شکر کروانا چاہ رہا ہے، لیکن اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ہمیں باقاعدہ شکر کرنے کا حکم بھی دیا جبکہ اگر اللہ نے شکر کرنے کا حکم بھی نہ دیا ہوتا تو ہمیں فطری طور پر شکر کرنا تھا، لیکن اسی کو کافی نہیں سمجھا اور قرآن کریم میں کئی بار لوگوں کو شکر کرنے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ خداوند متعال نے فرمایا ہے: "وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ"[2]، "اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے بارے میں نصیحت کی ہے کہ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ سہہ کر اسے پیٹ میں رکھا ہے اور اس کی دودھ بڑھائی بھی دوسال میں ہوئی ہے  کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کرو کہ تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے"، اور کیونکہ لوگوں میں شکر اور قدردانی کرنے والے افراد بہت کم ہیں تو فرمایا: " وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ[3]"، "اور ہمارے بندوں میں شکر گزار بندے بہت کم ہیں"۔
شکر کرنے کے اسباب: مذکورہ بالا بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ہماری فطرت اور ضمیر ہمیں شکر کرنے پر ذمہ دار ٹھہراتا ہے لہذا جو چیز سبب بنتی ہے کہ انسان شکر کی ادائیگی کی حس کو زیادہ طاقتور کرتا چلا جائے، وہ یہ ہے کہ پہلے اللہ کی نعمتوں کو پہچانے جس کے لئے ان علوم کا حاصل کرنا فائدہ مند ہے جن سے نعمتوں کی پہچان ہوتی ہے جیسے علم الابدان (انسانی فزیالوجی) کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ خالق کائنات نے ہمیں کتنی نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ قدرتی علوم میں سے جو علم باعث بنتا ہے کہ انسان اللہ کی نعمتوں کی زیادہ قدردانی کرتا ہوا اللہ کا شکر بجالائے، انسانی حیاتیات کا علم ہے، نیز توحید مفضل جیسی کتب کا مطالعہ، قدرت پروردگار کی معرفت اور پہچان کے بڑھنے کا باعث ہے، کیونکہ یہ کتاب حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی زبان اطہر سے جاری ہونے والی باتوں پر مشتمل ہے۔
مخلوق کا شکر: شکریہ ادا کرنا صرف خالق کا نہیں بلکہ مخلوق کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے، جو شخص کسی کو کوئی چیز دیتا ہے، اگرچہ اسے شکریہ کی توقع نہیں ہونا چاہیے، لیکن لینے والے شخص کو چاہیے کہ دل، زبان اور عمل کے ذریعہ اس کا شکریہ ادا کرے۔ حضرت علی ابن موسی الرضا (علیہماالسلام) فرماتے ہیں: "مَنْ لَمْ یَشْکُرِالْمُنْعِمَ مِنَ الَمخْلُوقینَ لَمْ یَشْکُرِ اللّهَ عَزّوجل[4] "، "جو شخص مخلوقات میں سے نعمت دینے والے کا شکریہ نہ کرے تو اس نے اللہ عزوجل کا شکر نہیں کیا"۔ اس روایت کے دو معانی ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ جو شخص، نعمت دینے والی مخلوق کا شکریہ ادا نہیں کرتا اس شخص میں ناشکری کی صفت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی نظر میں لوگوں کی نعمت کی کوئی قدر نہیں، ایسا شخص یقیناً اللہ تعالی کا بھی شکریہ ادا نہیں کرے گا۔ دوسرا یہ کہ مخلوق کا شکریہ ادا کرنا درحقیقت اللہ ہی کا شکریہ ادا کرنا ہے،کیونکہ مخلوق، اللہ کی نعمت کو منتقل کرنے میں واسطہ ہے، لہذا جو مخلوق کا شکریہ ادا نہ کرے حقیقت میں اس نے اللہ کا شکریہ ادا نہیں کیا۔
نتیجہ: اللہ کا شکر ادا کرنا اتنا اہم ہے کہ قرآن، روایات اور حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ میں اس کا تذکرہ ہوا ہے۔ شکر ادا کرنا فطری کام ہے اور انسان کا ضمیر اس کام پر انسان کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے، غورطلب بات یہ ہے کہ اگر انسان اس فطری طاقت کو نعمتوں کے یاد کرنے اور ان پر غور کرنے کے ذریعے سے مزید طاقتور بنادے تو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اللہ تعالی کا زیادہ شکر کرنا چاہے گا، اور نیز کیونکہ شکر صرف زبانی طور پر نہیں ہوا کرتا بلکہ دل اور عمل سے بھی ہونا چاہیے تو انسان دل سے بھی کوشش کرے گا کہ اللہ کا شکر ادا کرے اور اللہ کے احکام پر عمل پیرا ہوتا ہوا عملی طور پر بھی شکر ادا کرنے کی انتھک محنت کرے گا، اتنی کوشش اور محنت کرنے کے باوجود اس بات کو بھی مدنظر رکھے گا کہ اللہ کے شکر کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جو اللہ کا شکر کیا ہے، اس شکر کی توفیق بھی اللہ نے دی ہے، لہذا دوسرے شکر کی ضرورت ہے، دوسرے کی وجہ سے تیسرے شکر کی ضرورت ہے، اسی طرح اس تسلسل سے اس نتیجہ تک پہنچ جائے گا کہ بارالہا! مجھے شکر ہی شکر کرنا چاہیے، لیکن میں حقیقی طور پر شکر ادا کرنے سے عاجز اور ناتوان ہوں، اگر انسان نے اس عجز اور کمزوری کا ادراک کرلیا تو وہ تب اُس شکر کو بجالایا ہے جو اللہ کو مطلوب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] احتجاج، طبرسی، ج1، ص131، 132۔
[2]سورہ لقمان، آیت 14۔
[3]سورہ سبا، آیت 12۔
[4]عیون اخبار الرضا، ج2، ص24۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 12 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 47