انسان کی ذمہ داریاں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: انسان کی خلقت کے ساتھ ہی خداوند متعال نے اس پر بہت زیادہ ذمہ داریوں کو عائد کیا ہے، جن کو نبھانا اس کے لئے ضروری ہے، خدا نے قرآن کی متعدد آیات میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

انسان کی ذمہ داریاں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
    انسان جیسے ہی اس زمین پر قدم رکھتا ہے، اس کے سر پر ذمہ داریوں کا ایک پھاڑ لاد دیا جاتا ہے، خود اس کی اپنی ذاتی ذمہ داریاں، خاندان کی ذمہ داریاں، رشتہ داروں کی ذمہ داریاں، تمام دینی اور غیر دین بھائیوں کی ذمہ داریاں، حیوانوں کی نسبت اس کی ذمہ داریاں گویا انسان کے اوپر الگ الگ قسم کی ذمہ داریوں کو ڈال دیا جاتا ہے، ان سب ذمہ داریوں کو نبھانا ایک مؤمن کے لئے ضروری  بھی ہے۔ اس مضمون میں قرآن کی روشنی میں یہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان کو اس کے ہر عمل کے بارے میں اس کا جواب دینا ہے، اب انسان کو اختیار ہے چاہے وہ اپنی ذمہ داریوں کو خدا کی اطاعت کرتے ہوئے بجالائے یا ان میں سے کسی کو بھی انجام نہ دیں۔
     خداوند عالم انسان کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اس سے  مخاطب ہوکر انسان سے سوال کررہا ہے: «أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناکُمْ عَبَثًا[سورۂ مؤمنون، آیت:۱۱۵] کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے»، اور دوسری جگہ  اس طرح فرمارہا ہے کہ: «أَیَحْسَبُ اْلإِنْسانُ أَنْ یُتْرَکَ سُدًی[سورۂ قیامت، آیت:۳۶] کیا انسان کا خیال یہ ہے کہ اسے اسی طرح آزاد چھوڑ دیا جائے گا»۔
      ان دو آیتوں سے یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ خدا نے انسان کو بیکار  ییدا نہیں کیا اور اس کو اس کے حال پر نہیں چھوڑا، بلکہ خداوند متعال نے کائنات کی ہر شیٔ پر کسی نہ کسی ذمہ داری کو عائد کیا ہے، اور کیونکہ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے اس سب سے زیادہ ذمہ داریوں کو عائد کیا گیا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے: ''جن کے رتبے ہیں سواء ان کو سواء مشکل ہے''۔ اس لحاظ سے انسان پر بہت زیادہ ذمہ داریوں کو عائد کیا گیا ہے اور ان ذمہ داریوں کو نبھانا اس کے لئے ضروری بھی ہے، جس کی طرف امام علی(علیہ السلام) اس طرح اشارہ فرمارہے ہیں: «اِتَّقُوا اللّه َ في عِبادِهِ و بِلادِهِ فإنّكُم مَسؤولُونَ حتّى عنِ البِقاعِ و البَهائمِ، أطِيعُوا اللّه َو لا تَعصُوهُ[۱] اللہ کے بندوں کے بارے میں اور ان کے شھروں کے بارے میں خدا سے ڈرو، بے شک تم لوگوں سے زمینوں اور چار پایوں کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا، خدا کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی نہ کرو»، اس روایت میں تقوے کو لوگوں اور اللہ کی مخلوق کی خدمت میں بیان کیا جارہا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی صرف اللہ کے احکام کو بجالارہا ہے لیکن اگر وہ اللہ کی مخلوق سے غافل ہے تو اس کو متقی نہیں کہا جائیگا، متقی وہ ہوگا جو اللہ کی عبادت کے ساتھ ساتھ اس کی تمام مخلوقات کی بانستب اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے۔
     خداوند متعال ہر انسان کو اس کے عمل کی جزاء دینے والا ہے وہ جیسا عمل کریگا اس کو  اس کی ویسے ہی جزاء ملیگی، اسی لئے انسان کو ہر عمل کرنے سے پہلے یہ سونچنا چاہئے کہ میں نے جس عمل کو انجام دیا ہے، اس کےذریعہ میں نے کسی کو ناراض تو نہیں کیا، میں نے اس عمل کے ذریعہ خدا کو راضی کیا یا نہیں، خدا نے مجھ پر جو ذمہ داری عائد کی تھی آیا میں نے اس ذمہ داری کو انجام دیا یا نہیں، ایسے ہی ہر عمل کے بارے میں اسے سونچنا چاہئے جس کے بارے میں خدا وند متعال اس طرح فرمارہا ہے: «فَوَ رَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُم أَجمَعِينَ عمّا كانوا يَعْمَلُونَ[سورۂ حجر، آیت:۹۱ و ۹۲] آپ کے پروردگار کی قسم کہ ہم ان سے اس بارے میں ضرور سوال کریں گے»، ان آیتوں اور اس جیسی بہت زیادہ آیات میں خداوند متعال نے انسان کو  یہ صاف صاف الفاظ میں بیان کرچکا ہے کہ اس کے ہر عمل کے بارے میں اس سے سوال کیا جائیگا۔
نتیجہ:
     قرآن مجید کی ان آیات کی روشنی میں ہمیں یہ نتیجہ ملتا ہے کہ ہم کو کس عمل کو اور کس کے لئے انجام دینا چاہئے تاکہ ہمارا عمل کل قیامت کے دن ہماری بخشش کا سبب بنے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱] نهج البلاغة، محمد بن حسين، ص۲۴۳، هجرت‏، قم‏، ۱۴۱۴ق‏.

 

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 38