ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے گیارھویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔
الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ ۗوَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٩٧﴾ سورة التوبة: واضح رہے کہ کفر و اسلام شهر اور دیہات کی میراث نہیں ہیں۔ نہ شہری زندگی اسلام کی ضمانت ہے کہ اس میں صنادید قریش اور یہود مدینہ بھی پیدا ہوتے ہیں، اور نہ د یہاتی زندگی کفر و نفاق کی ضمانت ہے کہ اس میں بڑے بڑے مخلص صاحبان ایمان پیدا ہوئے ہیں۔ شہری اور دیہاتی زندگی میں فرق ضرور ہوتا ہے کہ دیہات والا عام طور سے علوم اور معلومات سے دور رہتا ہے اور اسی لئے اپنے نظریات میں شدید اور جہالت سے قریب تر ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا ایمان و اخلاص بھی شدید تر ہوتا ہے جیسا کہ خود اسی آیت کے آخر میں بیان کیا گیا ہے۔ معلومات سے دور ہونے ہی کا نتیجہ ہے کہ راہ خدا مال خرچ بھی کرتے ہیں اور اسے گھاٹا بھی سمجھتے ہیں ۔ ورنہ شهری قسم کے ہوشیار ہوتے تو خرچ ہی نه کرتے۔ ان لوگوں کی منافقت کا اثر یہ ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں گردش زمانہ کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ یہ سب تباہ ہو جائیں تو ہمیں اس خسارہ سے بھی نجات مل جائے۔ بہرحال اعرابیت ایک کردار ہے جس کی روح جہالت اور کفر و نفاق میں شدت ہے۔ یہ جہاں بھی پیدا ہو جائے اسے اعراب ہی کہا جائے گا چاہے دنیا کے متمدن ترین علاقہ کا ہی رہنے والا کیوں نہ ہو۔
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾ سورة التوبة: آیات کریمیہ نے عالم اسلام کو چار حصوں پر تقسیم کر دیا ہے ا۔ ہجرت اور نصرت کی طرف سبقت کرنے والے۔ ۲۔ سابقین کا اتباع کرنے والے۔ ٣۔ دیہات کے منافقین۔ ۴۔ شہر کے ہوشیار منافقین۔ اس کے بعد ان لوگوں کا کر کیا ہے جن کے اعمال نیک و بد مخلوط تھے اور انہوں نے جنگ تبوک میں شرکت نہیں کی اور پھر توبہ کرنے آئے۔ ان دس افراد میں ابو لبابہ بھی تھے جنہوں نے اپنے کو ستون مسجد سے باندھ لیا تھا اور پھر آیت کے نزول کے بعد پیغمبر(ص) نے آ کر انہیں کھولا تو سارا مال لا کر دے دیا کہ اسی نے جهاد سے روکا تھا اور حضور (ص)نے بحکم خدا قبول بھی کرلیا۔
اس مقام پر ایک لمحۂ فکریہ یہ بھی ہے کہ جنگ تبوک ۹ھ تک مدینے اور اس کے اطراف میں منافقین بھرے ہوئے تھے تو ۱۱ھ میں یہ سب کہاں چلے گئے اور وفات رسول(ص) کے بعد سارامد ینہ اہل حل و عقد کا شہر کس طرح بن گیا اور سارے بزم نشین عادل کس طرح قرار پاگئے؟؟؟۔
وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴿١٠٧﴾ سورة التوبة: ابو عامر راہب مدینہ کا ایک نصرانی تھااس نے روز اول سے اسلام کی مخالفت شروع کر رکھی تھی۔ سرکار (ص)نے مدینہ میں قدم جمائے تو مکہ بھاگ گیامکہ فتح ہوا تو طائف چلا گیا۔ طائف کے لوگ اسلام لے آئے تو شام بھاگ گیا اور وہاں سے منافقین کو لکھا کہ تم لوگ مسجد قبا کے پاس ایک مسجد بنا اور اسے اپنا قلعہ قرار دو میں قیصر روم کے یہاں سے فوج لے کر آ رہا ہوں ۔ لوگوں نے فی الفور شاندار مسجد بنا دی اور سرکار(ص) سے افتتاح کی خواہش کی کہ یہ ہمارے گھروں سے قریب تر ہے اور کمزور لوگوں کے لئے کافی کارآمد ہے۔ آپ نے تبوک کی واپسی تک ملتوی کر دیا اور واپس آ کر بحکم خدا اسے منہدم کرا دیا۔
واضح رہے کہ ایسے ابو عامر ہر دور میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور مسجد ضرار ہر دور میں تعمیر ہوتی رہتی ہے۔ اسلام کے نام پر اسلام کی تباہی کا منصوبہ کفرکا بہت پرانا حربہ ہے۔ افسوس کہ آج کوئی ان حقائق کا بے نقاب کرنے والا نہیں ہے اور نفاق برابر ترقی کر رہا ہے اور اسلام کے نام پر اسلام کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ خدا نے چاہا تو وارث پیغمبر (ص)پردہ ٔغیب سے باہرآ کر ان حقائق کو پھر سے بے نقاب کرے گا۔
Add new comment