سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: نویں پارے کا مختصر جائزہ

Wed, 05/15/2019 - 17:03

ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے نویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔

سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: نویں پارے کا مختصر جائزہ

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَـٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٩٦﴾ سورة الأعراف۔:آیت کریمہ نے اس حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے کہ ایمان اور تقوی کا اثر صرف آخرت میں نہیں ہوتا ہے بلکہ دنیا میں بھی اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور وہ اثرات مادی وسائل کا نتیجہ نہیں ہیں، ماوی وسائل شرق و مغرب اور جنوب و شمال میں کام کرتے ہیں اور قدرتی وسائل زمین و آسمان پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ وہ صاحبان ایمان کو زمین و آسمان کی برکتوں سے نواز دیتا ہے اور انہیں کسی کا محتاج نہیں رکھتا ہے اور نہ ان کے حالات کو دنیا کی کوئی طاقت چیلنج کر سکتی ہے۔ ان کا مددگار خدا ہے جو زمین و آسمان دونوں کا خالق ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ صاحبان ایمان و تقوی کام کرنا چھوڑ دیں اس لئے کہ تقوی کے معنی ہی عمل کرنے کے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ منکر این اپنے مال پر بھروسہ کرتے ہیں اور اللہ والے غیبی امداد پر بھی تکیہ رکھتے ہیں اور جانتےہیں کہ عمل اور محنت کو بار آور بنانے والا وہی پروردگار ہے اور وہی ان کے مال میں برکت عطا فرماتا ہے۔
فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١١٨﴾ سورة الأعراف۔:قرآن مجید کا یہ فقرہ اور سورہ طہ کی آیت نمبر ۹۹ دلیل ہے کہ جادوگروں کے جادوکی کوئی حقیقت نہیں تھی اور انہوں نے صرف نظر بندی سے کام لیا تھا اور ان کا کاروبار فقط اس نظر بندی سے چل رہا تھا۔ انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ نبوت کی نگاہ میں جلوہ الوہیت ہوتا ہے اور اس کی نگاہ پر ان نظر بندیوں کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ جادوگر اپنے دور میں دین و مذہب کے ٹھیکیدار شمار کئے جاتے تھے اور انہوں نے تحفظ دین کے بارے میں بھی فرعون سے سودے بازی شروع کر دی تھی جو ہر دور کے خود ساختہ مذہبی ٹھیکیداروں کا حال ہوتا ہے کہ وہ مذہب کی حفاظت کے نام پر سودے بانری کرنے لگتے ہیں گویا مذہب کسی اور کا ہے اور یہ صرف کرائے کے کاریگر یا واقعاً بازی گر ہیں۔
قَالُوا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ ﴿١٢٥﴾ سورة الأعراف۔:ایل ایمان پر حق واضح ہو جاتا ہے تو وہ کسی طاقت اور جبروت کی پرواہ نہیں کرتے ہیں اور برملا اپنے ایمان کا اعلان کر دیتے ہیں۔ فرعون نے لاکھ دھمکی دی کہ ایک طرف کا ہاتھ اور ایک طرف کا پاؤں کاٹ دوں گا سولی پر لٹکا دوں گا لیکن اب ایمان کا ایک ہی جواب تھا کہ ہمیں بہرحال اللہ کی بارگاہ میں جاناہے اور اسی طرح جلد کی حاضری کا شرف حاصل ہو جائے گا۔
فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَـٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ ۗ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللَّـهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿١٣١﴾ سورة الأعراف۔:شراپسند عناصر اپنے کو خدا کا رشتہ دار تصور کرتے ہیں اور ہر نیکی پر اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پھر جب مصیبت یا بلا نازل ہو جاتی ہے تو اس کی نسبت اللہ والوں کی طرف دے دیتے ہیں حالانکہ وہ تمام اسباب اور اسرار سے خوب باخبر ہے۔
وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ ۚ أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ ﴿١٤٨﴾ سورة الأعراف۔:سامری نے ایک مجسمہ تیار کیا اور قوم میں اعلان کر دیا کہ میں تمہارا اور موسیٰ کا خدا ہے۔ قوم نے اپنی جہالت و حماقت کی بناء پر اس کی پرستش شروع کر دی اور جناب ہارون کی ایک نہ سنی جس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ گمراہ قوم نبی کے جانشین کی پرواہ نہیں کرتی ہے اور اپنے خود ساختہ کو ہرحق و حقیقت پر مقدم کردیتی ہے۔
قدرت نے اس خدا سازی کا ایک ہی جواب دیا کہ آواز کا پیدا ہو جانا کمال نہیں ہے۔ اتنا تو دیکھو کہ یہ نہ بات کر سکتا ہے اور یہ ہدایت دے سکتا ہے اور ایسا عاجز و مجبور ،خدا نہیں ہوسکتا ہے۔ سرکار دو عالم(ص) کے بعد امت اسلامیہ میں ایسا ہی انقلاب آیا تھا جیسا کہ جناب موسیٰؑ کے کوہ طور پر جانے کے بعد بنی اسرائیل میں آیا تھا۔ قوم نے صرف آواز کو ہنر بنا لیا اور ہدایت کی صلاحیت کو یکسرنظر انداز کر دیا۔
اخْتَارَ مُوسَىٰ قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِّمِيقَاتِنَا ۖ فَلَمَّا أَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُم مِّن قَبْلُ وَإِيَّايَ ۖ أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاءُ مِنَّا ۖإِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَن تَشَاءُ وَتَهْدِي مَن تَشَاءُ ۖ أَنتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۖ وَأَنتَ خَيْرُ الْغَافِرِينَ ﴿١٥٥﴾ سورة الأعراف۔:یہ توبہ کا مرحلہ ہے کہ جہاں پروردگار کا حکم ہوا تھا کہ قوم کے وہ افراد تو بہ کرنے کے لئے آئیں جنہوں نے گوساله پرستی میں حصہ نہ لیا ہو۔جناب موسیٰؑ نے اس طرح کے ستر افراد کا انتخاب کیا اور کوہ طور پر لے گئے لیکن انہیں بھی زلزلے کا سامنا کرنا پڑا اور جب یہ فریاد کی کہ ہم نے گوساله پرستی نہیں کی تھی تو ارشاد ہوا کہ تم نے روکا کیوں نہیں تھا۔ دین خدا میں خشک مقدسین کا گزر نہیں ہے۔ مجاہدین اور مبلغین کی ضرورت ہے۔ جو لوگ یہ کہہ کر الگ ہو جاتے ہیں کہ قوم کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔ وہ بھی ایک دن زلزلہ کے جھٹکوں کا شکار ہوں گے تو انہیں اپنے تقدس یا اعراض کاصحیح اندازہ ہوگا۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
10 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 33