سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: ساتویں پارے کا مختصر جائزہ

Mon, 05/13/2019 - 12:00

ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے ساتویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔

سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: ساتویں پارے کا مختصر جائزہ

وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ۔:ابتدائے اسلام میں مشرکین نے اپنے مفادات کو خطرہ میں دیکھ کر مسلمانوں کو ستانا شروع کیا تو سرکار دو عالم نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دے دیا اور جناب جعفر طیارکو قافلہ سالار بنا دیا، یہ ہجرت ایک طرف مسلمانوں کی تسکین کا ذریعہ تھی کہ اذیت کے ماحول سے نکل گئے اور دوسری طرف اسلام کی اشاعت کا بہترین وسیلہ تھی جو اجتمائی ہجرت کے بغیر ممکن نہ تھی۔ چنانچہ جناب جعفرؑ نے نجاشی کے یہاں پناہ لی اور ادھر مشرکین نے عمرو عاص وغیرہ کو بھیج دیا کہ ان لوگوں کو واپس لے آئے۔ انہوں نے نجاشی کو تحفہ تحائف دے کر واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس نے جناب جعفرؑسے صورت حال دریافت کی۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نہ ان کے غلام ہیں۔ نہ مقروض ہیں اور نہ کسی کو قتل کر کے آئے ہیں۔ ہم ان کے مظالم سے پناہ لینے آئے ہیں اور ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم آخری نبی(ص) پر ایمان لے آ ئے ہیں جس کے پیغامات یہ ہیں ........... یہ سن کر نجاشی دنگ رہ گیا کہ یه تو بعینہ حضرت عیسیٰؑ کے پیغامات ہیں اور قرآن سنانے کی فرمائش کی۔ جناب جعفرؑنے سورہ مریم کی آیات پڑھ کر سنائیں تو نجاشی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور عمرو عاص کے منہ پر ایک طمانچہ مار کر اسے نکال باہر کر دیا اور مسلمان وہاں ایک مدت تک سکون و اطمینان سے رہے۔ اور یہ جناب جعفرؑ کی ایسی فتح تھی کہ جب خیبر کے موقع پر وہ واپس آئے تو پیغمبر اسلام (ص)نے فرمایا کہ میں کس چیز سے زیادہ مسرت کا اظہار کروں۔فتح خیبر سے یا رجوعِ جعفرؑسے ۔۔۔۔۔اور *حقیقت یہ ہے کہ یہ موقع انتہائی حسین تھا جب روح ابو طالب وجد کر رہی تھی کہ اسلام کے دو فاتح اکٹھا ہورہے ہیں ایک بیٹے نے یہودیت کے محاذ کو فتح کیا ہے اور دوسرے نے عیسائیت کے محاذ کو*.......... یا ایک نے زور بازو کا مظاہرہ کیا ہے اور دوسرے نے زور بیان کا ایک نے قرآن کی عظمت کا اظہار کیا ہے اور دوسرے نے اہل بیت کی جلالت کا ایک نے کفر کے حوصلے پست کئے ہیں اور دوسرے نے اسلام کی شوکت میں اضافہ کیا ہے اور یہ تمام باتیں عین ان کی توقع اور تمنا کے مطابق واقع ہوئی ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ:دین اسلام نے شراب اور جوائے کی شدت سے مخالفت کی ہے اور اس کے دینی اور دنیاوی نقصانات سے آگاہ کیا ہے کہ شراب عقل کی بربادی اور جوا مال کی بربادی اور حرام خوری کی دعوت ہے۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ مسلمان معاشروں میں ان مفاسد کی طرف سے توجہ ہٹتی جا رہی ہے اور شراب سے پر ہیز کرنے والے بھی جوے کی لعنت میں گرفتار ہیں اور عالم اسلام کا یہ بد ذوقی ہے کہ دنیا کے مشہور ترین جواریوں کو بھی خادم الحرمین کا درجہ دینے کے لئے تیار ہے۔ اسلام کا اس سے بڑا مذاق اور ضمیر فروشی کا اس سے زیادہ واضح مظاہرہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ:یہ ایک عام قانون ہے جس سے خبیث وطیب ایثار اور خبیث وطیب افر اوسب مراد ہیں کہ خبیث لاکھ اچھا معلوم ہو طبیب کے برابر نہیں ہوسکتا۔ طیب خدا کی نگاہ میں پاکیزہ ہوتا ہے اور خبیث خدا کی نگاہ میں خبیث ہوتا ہے اور خدا کی نگاہ سے گر جانے کے بعد کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے۔دنیا میں خبیث افراد کا راحت و آرام میں رہنا اس بات کی علامت نہیں ہے کہ وہ نگاہ خدا میں محبوب کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ متاع دنیا کا قانون الگ ہے اور بوبیت پروردگار کا نظام الگ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ:انسانیت کی تباہی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب تقلید آباء بھی ہے جس کی بیماری ہر دور میں رہی ہے اور اس کی مذمت قرآن مجید نے بڑے کھلے الفاظ میں کی ہے اور اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جب تمہارے باپ دادا صاحبان علم و ہدایت نہیں تھے تو ان کی تقلید کے کیا معنی ہیں۔یہ تو یہود و نصاری کا عالم تھا لیکن آج دنیائے اسلام و ایمان میں بھی ایسے نادان و احمق پائے جاتے ہیں جو باپ دادا کی احمقانہ رسموں کو کلیجے سے لگائے بیٹھے ہیں جب کہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس دین و دنیا کا اتنا علم بھی نہیں تھا جتنا خود ان کے پاس ہے اور اس کا راز صرف یہ ہے کہ ان کی تربیت انہیں رسموں کی چھاؤں میں ہوئی ہے اور انہیں ابتدا سے انہیں رسموں کی لوریاں دی گئی ہیں تو اگر صاحبان ایمان ایسی حماقتیں کر سکتے ہیں تو اگر دوسرے لوگ حقائق کے روشن ہو جانے کے بعد بھی باپ دادا کے مذہب پراڑے ہوئے ہیں تو کیا حیرت کی بات ہے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 36