ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے آٹھویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔
وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ ﴿ ١١١﴾ سورة الأنعام۔:کفار کے طرح طرح کے مطالبات کا اجمالی جواب دینے کے بعد تقصیلی معجزات کی طرف اشارہ کیا گیا اور آخر میں یہ کہہ دیا گیا کہ کل کائنات جن و انس وحوش و طیور سب مل کر بھی گواہی دینے لگیں تو بھی یہ ظالم ایمان نہ لائیں گے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بے ایمانوں کا مزاج ہی الگ ہوتا ہے۔ تو اگر یہ کل کائنات کی گواہی کا انکار کر سکتے ہیں تو غدیر کے تقریبا سوا لاکھ کے مجمع کا انکار کرنے میں کیا زحمت ہے۔
وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ ﴿١١٦﴾ سورة الأنعام۔:اگر دنیا کے تمام مختلف عقائد کا جائزہ لیا جائے اور سب کی مردم شماری کی جائے تو اندازہ ہو گا کہ کائنات کی اکثریت گمراہی کے راستے پر ہے اور اس کے پاس ظن و تخمین کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اکثریت کے فلسفہ کو رد کر دیا ہے اور حق وصدق کے اتباع کا حکم دیا ہے ورنہ اکثریت کے اتباع میں ضلالت اور گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٢٢﴾ سورة الأنعام۔:یہ اسلام و کفر کی حسین ترین تمثیل ہے کہ انسان گویا مردہ تھا اسلام نے اسے زندہ بنا دیا اور پھر ایک نورانیت عطا کر دی ہے جس کے سہارےلوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے یعنی اپنی زندگی کے جملہ مسائل اسی اسلام سے حل کرتا ہے اور ہر مسئلہ میں اس سے روشنی حاصل کرتا ہے... اور کافر موت کی تاریکی میں پڑا ہوا ہے جس سے نکلنا نصیب نہیں ہوا اور شیاطین نے کفار کی نگاہ میں اس تاریکی اور موت کی کیفیت کو آراستہ کر دیا ہے کہ وہ اس سے نکلنے کا ارادہ بھی نہیں کررہے ہیں؛کہا جاتا ہے کہ آیت شریفہ جناب حمزہ اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہیں لیکن مضمون بہر حال جامع اور عام ہے جو ہر دور اور ہر جگہ صادق آتا رہتا ہے۔
وَقَالُوا هَـٰذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَّا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَن نَّشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ ۚ سَيَجْزِيهِم بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴿١٣٨﴾ سورة الأنعام۔:اقوام عالم میں استحصال کی بیماری ہر دور میں رہی ہے۔ چنانچہ کفار نے بھی زراعت اور حیوانات کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا۔ کچھ تو مذہب کے ٹھیکیداروں کے لئے مخصوس کیا۔ کچھ کو صرف مردوں کے لئے رکھا۔کچھ میں دوسرے انداز کا استحصال کیا اور اس طرح عوام الناس کو رزق خدا سے محروم کر دیا۔جب کہ پروردگار عالم سب کا پالنے والا ہے اور اس نے ان منافع کو سب کے لئے مشترکہ طور پر پیدا کیا تھا اسی لئے اس نے ان حرکات کومختلف قسم کے عیوب سے تعبیر کیا ہے اور انہیں متوجہ کیا ہے کہ اول تو یہ قَسم ہی غلط ہے پھر اس کا خدا کی طرف منسوب کرنا قیامت بالائے قیامت ہے لیکن استحصال گروں کا طریقہ یہی رہا ہے کہ اپنے سارے خیالات و مزعومات کو مذہب کا نام دے کر خدا کے نام پر رواج دیتے ہیں اور اس طرح اپنے منافع کا انتظام کرتے ہیں؛فرضی محرمات پر تنقید کرنے کے بعد حلال اشیاء کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے اور اس میں نباتات، حیوانات سب کو شامل کر کے اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ہمارے اس مفصل بیان کے بعد کسی کو اپنی طرف سے حلال و حرام میں دخل اندازی کرنے کاحق نہیں ہے۔ اے کاش امت اسلامیہ بھی اس نکتہ کی طرف متوجہ رہتی اور استحصال پسند عناصر سے اپنے کومحفوظ رکھنے کی فکر کرتی۔
سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ حَتَّىٰ ذَاقُوا بَأْسَنَا ۗ قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا ۖ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ ﴿١٤٨﴾ سورة الأنعام۔:بے ایمان انسان کی فطرت ہے کہ پہلے اپنے عیب کو حسن ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کے بعد جب اس مہم میں نا کام ہو جاتا ہے تو دوسروں کے سر زمہ داری ڈال دیتا ہے چنانچہ مشرکین نے بھی یہی کیا ہے کہ پہلے اپنے کو حلال وحرام کا ٹھکیدار بنایا۔ پھر جب اس کا اثبات نہ کر سکے تو خدا کو اس کا ذمہ دار بنا دیاحالانکہ ہر صاحب عقل جانتا ہے کہ خدا جبر نہیں کرتا ہے اور وہ جبر کرتاتو ایمان لانے پر کرتا نہ کہ خرافات بکنے پر۔
مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿١٦٠﴾ سورة الأنعام۔:یہ پروردگار کا نظام مرحمت ہےجسم کے بارے میں سرکار دو عالم (ص)نے فرمایا ہے کہ نیکیوں کا ثواب دس گنا اور برائیوں کا عذاب ایک ہی ہے ؛ حیرت ہے ان لوگوں پر جو ایک کو دس گنا پر مقدم کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یعنی دنیا داری کرنا ہے تب بھی یہ سوچنا چاہئے کہ نیکی میں معاوضہ زیادہ ہے اور دین دار ہیں تو یہ احساس کرنا چاہئے کہ ثواب اختیار کرنے کے لائق ہوتا ہے نہ کہ عذاب۔
Add new comment