سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: پانچویں پارے کا مختصر جائزہ

Sat, 05/11/2019 - 02:19

ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے پانچویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔

سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: پانچویں پارے کا مختصر جائزہ

چوتھے پارے کے آخر میں ان عورتوں کا ذکر تھا جن سے نکاح کرنا حرام ہے، پانچویں پارہ کے شروع میں اسی بحث کو مکمل کیا گیا ہے ، اس کے علا وہ جو اہم مضامین اس بارے میں آئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:۔ا۔ تیسر ے رکوع میں گھر کے نظام کو درست رکھنے کے لئے چند بنیا دی ہدایات دی گئی ہیں، پہلی ہدایت تو یہ دی گئی ہے کہ گھر میں قوّامیت( حاکمیت ) اور ذمہ دار ہونے کا درجہ مرد کو حاصل ہوگا ، کیونکہ جس جماعت اور جس گھر کا کوئی سر براہ نہ ہوا سے انتشار اور افتراق سے کوئی نہیں بچا سکتا، اس سربراہی کا یہ مطلب نہیں کہ مرد کو آقا اور عورت کو لونڈی کا درجہ دےدیا جائے بلکہ ان کا باہمی تعلق ایسے ہوگا جیسے راعی اور رعیت کا ہوتا ہے ، دوسری ہد ایت یہ دی گئی ہے کہ اگر عورت اکھڑ مزاج ، نا فر مان اور سرکش ہوتو اسے راہ راست پر لانے کے لئے مناسب اور مرحلہ وار چند تدبیریں اختیار کی جاسکتی ہیں۔۲۔ گھر اور خاندان کے نظام کو درست رکھنے کی تدابیر بتانے کے بعد پانچویں رکوع میں اجتماعی زندگی کی درستگی کے لئے ہر چیز اور ہر کام میں احسان کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ احسان کی بنیا و باہمی خیر خواہی، امانت ، عدل اور رحمدلی پر ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ، حق ، عدل اور مساوات کا دین ہے اور وہ ساری مخلوق کے درمیان عدل کا حکم دیتا ہے یہاں تک کہ کافر کے حقوق بھی غصب کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اللہ نے مسلمانوں کے سامنے اس حقیقت کو خوب اچھی طرح واضح کر دیا کہ کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں جب تک کہ وہ اللہ اور رسول کے فیصلوں پر راضی نہ ہو اور یہ بھی بتا دیا گیا کہ رسول کی بعثت کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے ، رسول کی اطاعت حقیقت میں اللہ کی اطاعت ہے لیکن ظاہر ہے منافقوں کو رسول کی اطاعت بڑی گراں محسوس ہوتی ہے۔۳- اس کے بعد ساتویں رکوع میں پہلے تو مسلمانوں کو جہاد اور قتال کی تیاری کا حکم دیا گیا ہے اور یہ کہ اپنی نیت خالص رکھیں اور صرف اللہ کی رضا اور دین کی سر بلندی کے لئے جنگ کریں پھر انہیں جہاد کی ترغیب دی گئی ہے کہ آخرتم جہاد کیوں نہیں کرتے جبکہ صورت یہ ہے کہ ظلم وستم کی چکی میں پسنے والے کمزور مرد، خواتین اور بچے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا پھیلا کر  اپنی مدد کے لیےدعائیں کرتے ہیں ، چونکہ عام طور پر موت کا خوف جہاد کے میدان میں نکلنے سے ایک بڑی رکاوٹ بنتا ہے اس لیے فر مایا گیا کہ موت تو کہیں بھی آ سکتی ہے ، گھر میں بھی اور مضبوط قلعوں میں بھی ، نہ جہاد میں نکلنا موت کو یقینی بناتا ہے اور نہ ہی گھر میں رہنا زندگی کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ ۴- جہاد و قتال کی ترغیب کے بعد مسلمانوں کو منافقین کی تدبیروں اور سازشوں سے چوکنا رہنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ یہ وہ سنگدل گر وہ ہے جس نے اسلام کا جامہ زیب تن کر کے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے، مدینہ منورہ میں جو پہلی اسلامی ریاست قائم ہوئی اس کے خلاف سازشوں کا تانا بانا بنانے میں بھی یہی گر وہ پیش پیش تھا، مسلمان ان حرمان نصیبوں کے بارے میں فیصلہ کر نے میں متردد تھے کہ سورہ نساء کا حصہ نازل ہو گیا جس میں ان کی ذلت آمیز حرکتوں، خفیہ منصوبہ بندیوں اور بغض و حسد پر مبنی کارروائیوں کا پول کھول دیا گیا اور ان کے بارے میں واضح فیصلہ سنا دیا گیا کہ ان کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں تا کہ اہل ایمان اور اہل نفاق کے درمیان حد فاصل قائم ہوجائے ۔۵۔ دسویں رکوع میں مومن کے قتل عمد کی سزا بتائی گئی ہے اور اس کے لیے انتہائی سخت لہجہ اختیار کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ’’جو کوئی کسی مؤمن کو جان بوجھ کرقتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، اس پر الله کا غضب ہوا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیے اللہ نے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔ ۶۔ قتل عمد کی سزا بیان کرنے کے بعد دوبارہ جہاد کی اہمیت اور مجاہدین کی فضیات بتائی گئی ہے اور واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہنے والے برا نہیں ہو سکتے ۔ ۷۔ جہا د کے ساتھ ساتھ ہجرت کا بھی ذکر ہے کیونکہ ہجرت بھی جہاد کی مختلف قسموں میں سے ایک قسم ہے، چنانچہ گیارھویں رکوع میں فرمایا گیا ہے کہ جو شخص قدرت کے با و جو د  دار الکفر سے دارالاسلام کی طرف ہجرت نہیں کرے گا اور اس حالت میں اسے موت آجائے گی تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔۸۔ اس کے بعد متعدد آیات میں انسان کی سرکشی کا سبب بتلایا گیا ہے اور وہ یہ کہ اللہ کے مقابلے میں شیطان کی اطاعت کرتا ہے اور وہ اس کو ہدایت کے راستے سے بہت دور لے جاتا ہے۔۹۔ پھر ابو الانبیا ءحضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کا تذکرہ ہے اور یہ کہ ہدایت اسی کو ملے گی جوان کے راستے کی اتباع کرے گا۔۱۰۔ سولھویں رکوع میں دو بار عورتوں کا تذکرہ ہے جس میں ان پر ظلم کرنے اور ان کے حقوق غصب کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ کہ اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہو جائے تو انہیں آپس میں صلح کر لینی چاہئے کہ صلح ہی سب سے اچھا راستہ ہے۔ ۱۱۔ پانچویں پارہ کے آخری رکوع میں دو با رہ منافقین کی مذمت ہے اور انہیں سخت ترین عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
5 + 14 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 21