سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: تیسرے پارے کا مختصر جائزہ

Sat, 05/04/2019 - 21:12

ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے تیسرے پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔

سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن:دوسرے پارے کا مختصر جائزہ

تیسرے پارہ کے نصف اول میں جو  مضا مین بیان ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں: ا۔ انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت اور آداب جن کے ضمن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں عمدہ مال خرچ کرناچاہئے اور یہ کہ جس غریب اور مسکین پر خرچ کیا جائے اسے تکلیف دینے اور احسان جتلانے سے صدقہ خیرات باطل ہو جاتا ہے، یونہی ریا اور دکھاوےکی وجہ سے بھی صدقہ ضائع ہوتا ہے ۔ ریا کار شخص کے ہاتھ میں قیامت کے دن حسرت اور ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں آئے گا۔۲۔ ربا کی قطعی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے ،خواہ و عرفی قرض پر لیا جائے یا تجارتی قرض پر ،سود کی حرمت کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سودخور قیامت کے دن اٹھینگے گے تو ان سے آسیب زده شخص جیسی حرکات صادر ہوں گی ... دنیا میں بھی ان کا حال خبطیوں جیسا ہوتا ہے۔’’سود کھانے کی وجہ سے عقل ماؤف ہو جاتی ہے یہاں تک کہ سود کھانے والا انسان قطعی حرام کو بھی تاویلوں سے حلال بنانے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘’’ سود کے پیسے میں برکت نہیں ہوتی اور اس سے بہت ساری اخلاقی، نفسیانی، اعصابی اور موروثی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔‘‘’’ سود سے باز نہ آنے والوں کے لئے الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وآلہ کی طرف سے اعلان جنگ ہے ،اس  جنگ سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے ، وہ یہ کہ سود کے لین دین سے ہمیشہ کے لئے تو بہ کر لی جائے۔‘‘’’ جتنی سخت وعید سودخوروں کے لئے ہے ایسی وعید کسی بھی دوسرے گنا ہ پر قرآن کریم میں مذکور نہیں ۔ ٣۔ صدقہ و خیرات کے فضائل و آداب اور سود کی حرمت اور اس کے نقصانات بیان کرنے کے بعد مالی معاملات کو درست رکھنے اور تجارت میں ان اسباب سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے جن کی وجہ سے باہمی تنازعات پیدا ہوتے ہیں،اس بارے میں ہدایات کے لئے جو آیت کریمہ آئی ہے وہ قرآن کریم کی سب سے طویل آیت ہے ، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مال و دولت في ذاتہ اللہ کی نظر میں کوئی قابل نفرت چیز نہیں اور یہ کہ اسلام ، مالی معاملات، قرض کے لین دین اور خرید و فروخت میں صفائی کو بہت زیا دہ اہمیت دیتا ہے ، اس سلسلہ میں جو بنیادی ہدایت دیگئی ہے ، وہ یہ ہے کہ تمام اہم معاملات میں تحریری دستاویز تیار کر لی جائیں اور یہ کہ جب ادھار کا معاملہ ہوتو بالکل واضح طور پر اس کی میعا دمقرر کر لی جائے۔ سورۂ بقرہ کے اختتام پر مسلمانوں کو ایک جامع دعا سکھائی گئی ہے کہ وہ بارگا و بارئ تعالی میں یوں درخواست کیا کر ہیں کہ :اے اللہ !اگر احکام کی تعمیل میں ہم سے کوئی غلطی ہو جائے تو معاف کر دینا ....... جب ہم ، احکام الٰہیہ پر اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر استغفار کرتے رہیں گے اور بارگاہِ رب العزت میں دعا کرتے رہیں گے تو ان شاء اللہ یہود جیسے انجام بد سے بچے رہیں گے۔ تیسرے پارہ کے آٹھ رکوع تو سورۂ بقرہ پرمشتمل تھے ، اب نویں رکوع سے سورۂ آل عمران کا آغاز ہوتا ہے ۔ یہ سورت الاتفاق مد نی ہے ، اس میں بیس رکوع اور دو سو آیات ہیں ، چونکہ اس سورت میں حضرت عمران علیه السلام کے خاندان کا قصہ بیان کیا گیا ہے ، اس لئے اس کا نام ” آل عمران‘‘ رکھ دیا گیا ،جس طرح سورۂ بقرہ میں زیادہ تر روۓ سخن یہود کی طرف ہے ویسے ہی آل عمران میں اصل خطاب نصاریٰ سے ہے ۔ دونوں سورتوں کا آغاز حروف مقطعات میں سے’’ الم‘‘ او رقر آن کی حقانیت بیان کرنے کے ساتھ ہوا اور دونوں کے اختتام پر جامع قسم کی دعائیں منقول ہیں ۔اس سورت کی تقر یا اسی آیات اس وقت نازل ہوئیں جب نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس وفد میں نصاری کے ساٹھ مستند افراد شامل تھے ۔ وفد کے شرکا ء نے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ مباحثہ کیا اور انہیں معاذ اللہ ! اللہ کا بیٹا ثابت کر نے کی کوشش کی اور اس سلسلہ میں ان آیات سے استدلال کیا جن میں حضرت عیسی علیہ السلام کو کلمۃ الله یا روح اللہ قرار دیا گیا  ہے، ان کے اس غلط استدلال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ کے کلام میں دو قسم کی آیات ہیں؛ بعض آیات وہ ہیں جو اپنے مراد پر دلالت کرنے میں بالکل واضح ہیں ، ایسی آیات کو محکمات کہا جا تا ہے اور قرآن کریم کا غالب حصہ محکمات پر ہی مشتمل ہے اور دوسری قسم کی آیات وہ ہیں جن کی حقیقی اور یقینی مراد اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں...... ایسی آیات کو متشابہات کہا جاتا ہے، جوحق کے متلاشی ہوتے ہیں وہ ہمیشہ محکمات کی پیروی کرتے اور جن کے دل میں کمی اور دماغ میں فتور ہوتا ہے وہ ہمیشہ متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ..... کلمتہ الله اور روح اللہ جیسے الفاظ متشابہات کی قسم میں سے ہیں ، ان متشابہات کی بنیاد پر اپنےعقائد کی عمارت کھٹر ی کرتا ، پانی پر نقش بنانے کے سوا کچھ نہیں ، عیسائیوں کے غلط عقائد و نظریات کی تردیدہی کے ضمن میں حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کی نذر، پھر ان کی ولادت اور حضرت زکریا علیہ السلام کی کفالت اور اپنے لئے نیک اولاد کی دعا کا ذکر ہے ، اس کے ساتھ ساتھ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ، ان کے معجزات ، حواریوں کی نصرت اور حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھائے جانے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ،۔۔۔۔۔ جب واضح دلائل سن لینے کے با و جو د نصاریٰ ، قبولِ حق پر آمادہ نہ ہوئے تو پھر انہیں دعوت مباہلہ دی گئی یعنی آیئے ! ہم دونوں فریق اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر دعا کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اس پر اللہ لعنت فرمائے اور اسے نیست و نابود کر دے۔ پھر انہیں آخر میں یہ پیشکش کی گئی کہ آیئے ! ہم دونوں فریق اس نکتے پراتفاق کر لیں کہ ہم اللہ کے سوا نہ کسی کی عبادت کریں گے اور نہ ہی کسی کو اس کا شریک ٹھہرائیں گے لیکن انصاریٰ  اہلبیت علیہم السلام جیسی شخصیات کو دیکھ کرنہ مباہلہ کرنے پر آمادہ ہوئے اور نہ ہی شرک سے برأت کے اعلان پر۔۔۔۔ جو کمزوری کل کے نصاری میں پائی جاتی تھی وہ آج کے نصاری میں بھی پائی جاتی ہے۔۔۔۔۔ تیسرے پارے کے آخری رکوع میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا تھا کہ اگر تمہاری موجودگی میں آخری رسول آ گیا تو تم سب اس کی تصدیق اور اس کی مدد کرو گے، انبیاء سے عہد حقیقت میں ان کی امتوں سے عہد تھا مگر افسوس کہ ان انبیاء کی امتوں نے اس عہد کی پاسداری نہ کی اور تصدیق اور مدد کے بجائےتکذیب اور مخالفت تُل گئے ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 15 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 29