ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے پہلے پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔
• پہلا پارہ سورۂ فاتحہ مکمل اور سورۂ بقرہ کے کچھ حصے پرمشتمل ہے، سورۂ فاتحہ حمد بارئ تعالیٰ ہے ، اس سورہ کی حیثیت قرآن کے دیباچہ کی بھی ہے اور خلاصہ کی بھی ہے ، قرآن کریم کی تمام تعلیمات کا خلاصہ اس میں اختصار کے ساتھ آ گیا ہے ، کیونکہ قرآن کے بنیادی مضامین تین ہیں: توحید ، رسالت اور قیامت ۔ اس سورت کی ابتدائی دو آیتوں اور چوتھی آیت میں توحید کا مضمون ہے ، تیسری آیت میں قیامت کا ذکرہے اور پانچویں اور چھٹی آیت میں نبوت و رسالت کی طرف اشارہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ ایک بے مثال دعا، معارف کا بیش بہا خزانہ اور قرآنی علوم کا ایک شفاف آئینہ ہے جس میں ایک سو تیرہ سورتوں کی جھلک ہم مختصر وقت میں دیکھ سکتے ہیں ، شاید یہ جھلک با ر با ر دکھا نے ہی کے لئے سورۂ فاتحہ کو ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھنے کاحکم دیا گیا ہے۔
• سورۂ بقرہ قرآن کریم کی سب سے طویل سورت ہے جو کہ دو سو چھیاسی آیات پر مشتمل ہے ، سورۂ بقرہ کا اکثر حصہ ہجرت مدینہ کے بعد بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوا ، عربی زبان میں بقر" گائے" کو کہتے ہیں چونکہ اس سورت میں بقرہ کا لفظ بھی آیا ہے اور گائے کو ذبح کرنے کا واقعہ بھی مذکور ہے اسی لئے اسے سورۂ بقرہ کہاجاتا ہے۔ بنی اسرائیل کے ایک مالدار شخص کو اس کے بھتیجے نے وراثت ہتھیانے کی غرض سے قتل کر دیا پھر رات کی تاریکی میں نعش اٹھا کر کسی دوسرے کے دروازے پر ڈال دی اور اس پر قتل کا دعویٰ کر دیا ، قریب تھا کہ مدعی اور مدعی علیہ کے خاندان ایک دوسرے پر ہتھیا را ٹھا لیتے کہ الله تعالی ٰنے حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے انہیں گائے ذبح کرنے اور اس کے گوشت کا کچھ حصہ اس مقتول کے جسم کے ساتھ لگا نے کا حکم دیا، ایسا کرنے سے مقتول زندہ ہو کر اٹھ بیٹھا اور اس نے اپنے قاتل کی نشاندہی کر دی، اتفاق سے انہی دنوں بنی اسرائیل کا ایک گروہ مرنے کے بعد کی زندگی کا بھی انکار کر رہا تھا ، مقتول کے زندہ ہونے سے نہ صرف یہ کہ قاتل کی نشاندہی ہوئی بلکہ بعث بعد الموت پر ایک حجت بھی قائم ہوگئی ، علا وہ ازیں مصریوں کے ساتھ طویل عرصہ تک رہنے کی وجہ سے بنی اسرائیل کے دل میں گائے کی جو محبت و عقیدت رچ بس گئی تھی ، اس کی تردید بھی گائے ذ کر نے کا حکم دے کر کر دی گئی ۔ اس واقعہ کے علاوہ پہلے پارے میں جو اہم مضامین بیان ہوئے ہیں وہ درجِ ذیل ہیں:
1۔کلام اللہ کی صداقت اور حقانیت: یہ وہ کلام ہے جس کے اللہ کا کلام ہونے میں اور اسی کے بیان کردہ سارے مضامین کے مبنی بر حقیقت ہونے پر کوئی شک نہیں ۔۲۔ انسانوں کی تین قسمیں ہیں : مومن ، کافر اور منافق:۔ اللہ نے اہل ایمان کا تذکرہ چار آیات میں ، کافروں کا دو آیات میں اور منافقوں کا تیر ہ آیات میں فرمایا ہے ، ان تیرہ آیات میں منافقوں کے بارہ اوصاف بیان کئےگئے ہیں ، هم پر لازم ہے کہ ان اوصاف بد سے اپنا دامن بچا کر رکھیں، یہ اوصاف اورعلامات درج ذیل:جھوٹ ، دھو که، عدم شعور ،قلبی بیماریاں ، مکر ، سفاہت ، احکام الٰہی کا استہزاء، زمین میں فتنہ و فساد، جہالت ، ضلالت تذبذب اور اہل ایمان سے تمسخر۔۳۔ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی ارضی خلافت جس کی وجہ سے وہ اس امر کے پابند ہیں کہ زمین پر اللہ کے احکام کو نافذ کریں اور دنیا کا نظام ویسے چلائیں جیسے اللہ چاہتا ہے۔
۴۔ سورۂ بقرہ میں بنی اسرائیل یعنی یہود کا تذکره تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے، اس تذکرہ میں سب سے پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ الله نے بنی اسرائیل کو بے شمار ظاہری اور باطنی، دینی اور دنیوی نعمتیں عطا فر مائیں، مثلاً ان کے اندر کثرت سے انبیاء پیدا فرمائے، دنیا کی خوشحالی عطا کی ، ایمان کی نعمت سے سرفراز فرمایا ،فرعون کے مظالم سے نجات دی ، مصر سے فرعون نے ان کا تعاقب کیا تو سمندر میں راستے بنادیئے، وہ بے سروسامانی کے عالم میں تھے ان کے کھانے کے لئے من و سلویٰ کا انتظام کیا ، صحرائے سینا میں بادل کا سایہ مہیا فرمایا ، پتھر سے بارہ چشمے جاری کر دیئے اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ انہوں نے ان نعمتوں کا شکر، ادا نہ کیا اور بتدریج کفران نعمت کی بیماری میں مبتلا ہو گئے، چنانچہ انہوں نے حق کو چھپایا، خاتم النبین صلی الله علیہ وآلہ کی نبوت کا انکار کیا بچھڑے کو معبود بنایا، دشت سینا میں بے صبری اور حرص و طمع کا مظاہرہ کیا ، ار یحا شہر میں متکبرانہ انداز میں داخل ہوئے ، جبکہ انہیں عاجزی کا حکم دیا گیا تھا، انہوں نے متعدد انبیاء کو ناحق قتل کیا، بار بار بد عہدی کے مرتکب ہوئے ، انکے دل سخت ہو گئے تھے ، انہوں نے کلام اللہ میں لفظی اور معنوی تحریف کی ، شریعت کے بعض احکام پر وہ ایمان لائے اور بعض کا انکار کرتے رہے، وہ بغض اور حسد کی بیماری میں مبتلا ہوگئے ، وہ مادی زندگی سے مبالغے کی حد تک محبت کرتے تھے ، مقرب فرشتوں سے بیزاری کا اظہار کرتے تھے ، سحر و کہانت میں بے حد دلچسپی رکھتے تھے، به عملی کے با وجود جنت کے واحد ٹھیکیدار ہونے کا دعوی کرتے تھے (سوچنے اور عبرت و نصیحت کی بات یہ ہے کہ کہیں ان خرابیوں میں سے کوئی خرابی ہم مسلمانوں میں تو نہیں پائی جاتی ؟ ) یہو د پر انعامات اور ان کے جرائم بیان کرنے کے بعد تذکرہ ہے حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کا ، تعمیر کعبہ اور تحویل قبلہ کا.. .. .. ..
Add new comment