اللهمّ ارْزُقْنی فیهِ طاعَةَ الخاشِعین واشْرَحْ فیهِ صَدْری بإنابَةِ المُخْبتینَ بأمانِکَ یا أمانَ الخائِفین ۔
اے معبود! اس مہینے میں عجز و انکسار والوں کی سی طاعت عطا کرنے اور خاکسار اطاعت شعاروں کی سی توبہ کرنے کے لئے میرا سینہ کشادہ فرما، تیرے امان کے واسطے، اے ڈرے سہمے لوگوں کے امان ۔
مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ماہ مبارک رمضان کی پندرہویں کو دو اہم اخلاقی اور تربیتی چیز کا خداوند متعال مطالبہ کررہے ہیں ۔
۱: اللهمّ ارْزُقْنی فیهِ طاعَةَ الخاشِعین ۔ اے معبود! اس مہینے میں عجز و انکسار والوں کی سی طاعت عطا کرنے کی توفیق دے ۔
۲: واشْرَحْ فیهِ صَدْری بإنابَةِ المُخْبتینَ ۔ اور خاکسار اطاعت شعاروں کی سی توبہ کرنے کے لئے میرا سینہ کشادہ فرما ۔
اس دعا میں دو نکتہ پوشیدہ ہے کہ ایک خشوع اور خوف خدا اور دوسرے تواضع اور انکساری کے لئے انسان کے سینہ کا گشادہ ہونا ۔
اب اس مقام پر سوال یہ ہے کہ وہ متواضع اور منکسر کون لوگ ہیں جن کے سلسلہ میں اس دعا میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے دعا فرمائی ہے اور خداوند متعال سے درخواست کی ہے ، ہم اس مقام اپنی بات کو واضح کرنے کے لئے انحضرت سے منقول ایک حدیث کی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ اپ نے فرمایا : وَ أَمَّا عَلاَمَةُ اَلْخَاشِعِ فَأَرْبَعَةٌ ؛ خشوع و خضوع رکھنے والے افراد کی چار خصوصیتیں ہیں ’’ مُراقَبَةُ اللّه ِ في السِّرِّ و العَلانِيَةِ ، و رُكوبُ الجَميلِ ، و التَّفَكُّرُ ليَومِ القِيامَةِ ، و المُناجاةُ للّهِ ‘‘ (۱) کہ اگر یہ خصوصیات ہم میں موجود ہیں تو ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس کی حفاظت کرنی چاہئے اور اگر میرے اندر موجود نہیں ہے تو خدا سے اس کی درخواست کرنی چاہئے ، اس سے مدد مانگنی چاہئے کہ وہ ہمیں اس نعمت کو عطا کرے ۔
۱: مُرَاقَبَةُ اَللَّهِ فِي اَلسِّرِّ وَ اَلْعَلاَنِيَةِ ؛ جلوت و خلوت یعنی سب کے سامنے اور تنہائی میں اپنے اعمال پر نگاہ رکھنا ، بند کمرے میں یا مجمع عالم میں ، اندر یا باہر ہر حال میں ہماری حالت ایک ہونا چاہئے ، ایسا انسان دنیا کے ہر گوشہ میں خدا کو دیکھتا ہے اور خود کو خدا کے سامنے محسوس کرتا ہے ۔
۲: وَ رُكُوبُ اَلْجَمِيلِ ؛ خوف خدا رکھنے والا انسان نیک عمل انجام دیتا ہے ، اس کی تمام زندگی نیکیوں کا مجسمہ ہے یعنی اگر اس کی زندگی پر نگاہ دوڑائی جائے تو اس کی حیات میں نیکی کے سوال کچھ بھی نہ ملے گی ۔
۳: وَ اَلتَّفَكُّرُ لِيَوْمِ اَلْقِيَامَةِ ؛ ایسے افراد ہرگز قیامت کو نہیں بھولتے ، قیامت کو نگاہ میں رکھنا ،حساب و کتاب پر دھیان دینا ، خود کو خدا کے حضور میں پانا ، اپنے اعمال کی قبولیت یا اس کے رد ہونے کا رزلٹ دریافت کرنا ، اگر انسان یہ نہ بھولے کہ اس کا دل خدا کے ساتھ ہے تو اس کا ظاھر اور باطن دونوں ایک ہوگا ۔
۴: وَ اَلْمُنَاجَاةُ لِلَّهِ ؛ یہ لوگ مستقل اور مسلسل اہل مناجات ہیں ، کریم اہلبیت حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کہ جن کا اج یوم ولادت ہے ، اپ خاشعین اور خوف خدا کرنے والوں کے لئے بہترین نمونہ عمل اور ائڈیل تھے ، اپ کے حالات میں زندگی میں تحریر ہے کہ اپ خوف خدا اور خشوع و خضوع میں اس طرح محو ہوجاتے تھے کہ اپنے اطراف میں موجود لوگوں کا بھی احساس نہیں رہتا تھا ، خدا کے اولیاء جس وقت اس کی بارگاہ میں کھڑے ہوتے ہیں ان کے بدن میں رعشہ اور لرزہ طاری ہوجاتا ہے کیوں کہ وہ خود کو پروردگار عالم کی بارگاہ میں حاضر و ناظر پاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: مجلسی ، محمد باقر، بحارالأنوار، ج۱، ص۱۱۷۔
Add new comment