امام حسن عسکری (ع)کی سیاسی زندگی پر ایک نظر

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده: چکیده: مقالہ ھذا میں امام عسکری (ع) کی سیاسی پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ امام عسکری کے زمانے میں کتنے بادشاہ تھے اور آپ کو اتنی سختیوں میں کیوں رکھا گیا تھا؟ نیز ان سختیوں میں آپ کا کیا رد عمل رہا تھا ان تمام چیزوں کو اس میں بیان کیا گیا ہے

امام حسن عسکری (ع)کی سیاسی زندگی پر ایک نظر

امام حسن عسکری (ع)کی سیاسی زندگی پر ایک نظر

آفتاب عصمت کا تیرھواں سورج اور شیعوں کا  گیارھواں امام حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام)۸ ربیع الثانی  سن 232 ہجری مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور اپنی پربرکت زندگی کے ۱۳ سال آپ مدینہ ہی میں تشریف فرما رہے اسکے آپ کی باقی زندگی سامرا میں گزری، آپ کی امامت کی کل مدت ۶ سال رہی ہے اور۹ ربیع الاول  سن ۲۶۰ ہجری میں معتمد عباسی نے آپ کو زہر دغا سے شہید کر وادیا۔

آپ کی حیات طیبہ میں درج ذیل حکام کا زمانہ تھا:

۱۔ خلیفہ المعتز : اس زمانہ میں خلیفہ اور امام کے درمیان کوئی دشمنی یا سازش نھیں تھی کیونکہ اس زمانہ میں تُرک لشکر نے خلیفہ کے لئے بہت سی مشکلیں ایجاد کر رکھی تھیں، اس کی حکومت میں تباہ کاری و خرابکاری کر رکھی تھی اور خلیفہ ان مشکلات سے دست و پنجہ نرم کر رھا تھا لیکن آخر کار خلیفہ کو خلافت سے معزول هونا پڑا۔

۲۔ خلیفہ مہتدیٰ : اس کے امام علیہ السلام کے ساتھ اچھے روابط تھے اور اسی وجہ سے خلیفہ شراب، محفلِ رقص و سرور سے دور تھا اور نیکی و خیر کا مظاھر ہ کرتا تھا۔

۳۔ خلیفہ معتمد :  یہ خلیفہ اھل بیت (ع) کا سخت دشمن تھا اسی وجہ سے اس نے امام علیہ السلام کو ایک مدت تک قید خانہ میں رکھا لیکن مجبور هوکر امام علیہ السلام کو آزاد کرنا پڑا کیونکہ اس وقت کے نصاریٰ نے خلیفہ سے کچھ علمی سوالات کر لئے تھے چنانچہ اس مشکل کو حل کرنے اور نصاریٰ کے کھوٹے پن کو ظاھر کرنے کے لئے امام علیہ السلام کی مدد لی جیسا کہ تاریخی کتابیں اشارہ کرتی ہیں۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور حیات کا اکثر حصہ عباسی دارالسلطنت سامرا میں نظربندی یا قید کی حالت میں گزرا مگر اس حالت میں آپ کی بلندکرداری اور سیرت بلند کے مظاہرات سے معاشرہ پر ایسا اثر ڈالا کہ آج بھی تاریخ انگشت بدانداں ہے۔

تاریخ میں ملتا ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کا دَور ایک سخت اور دشوار دور تھا جس میں گونا گون افکار اور عقائد،  اسلامی معاشرے کیلیے خطرات بنے ہوئے تھے،تمام تر پیچیدگیوں کے باوجود امام علیہ السلام اپنے آباء و اجداد علیہم السلام کی طرح لحظہ بھر بھی مسائل سے غافل نہیں رہے اور اُٹھنے والی مخالف آواز کا اپنے مدلل موقف کے ساتھ جواب پیش فرماتے رہے، ۔  

ممکن ہے آپ کو اتنی سختیوں میں رکھنے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہوں:

1ـ شیعوں کی قدرت میں وسعت

امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے زمانہ میں عراق کے شیعہ ایک عظیم قدرت وطاقت میں تبدیل ہوگئے تھے اور تمام لوگ جانتے تھے کہ یہ گروہ خلیفہ وقت پر اعتراض کرتا ہے اور عباسیوں میں سے کسی ایک کی امامت کو جائز اور قانونی نہیں سمجھتا ہے ،بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ امامت الہی ، علی کی اولاد میں باقی ہے اور اس وقت اس خاندان کی ممتاز شخصیت امام حسن عسکری (علیہ السلام) ہیں ۔ شیعوں کی طاقت کی گواہی خود معتمد عباسی کے وزیر عبیداللہ نے دی ہے ،اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد آپ کے بھائی جعفر ""کذاب"" ، عبیداللہ کے پاس گئے اور اس سے کہا : میرے بھائی کا عہدہ مجھ پر چھوڑ دو ، میں اس کے بدلے میں تمہیں ہر سال بیس ہزار دینار دوں گا ، وزیر نے ان سے کہا : احمق! خلیفہ نے ان لوگوں پر اس قدر تلوار چلائی جو تمہارے والد اور بھائی کو امام سمجھتے تھے لیکن وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا اور اس نے پوری کوشش کی لیکن اس کو کچھ نہ مل سکا ،لہذا اگر اب تم شیعوں کی نظر میں امام ہو تو خلیفہ اور غیر خلیفہ کی ضرورت نہیں ہے اور اگر ان کی نظر میں تمہارا یہ مقام نہیں ہے تو ہماری کوشش اس سلسلہ میں تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی [1]۔

2ـ اس زمانہ کے تمام شیعوں کا امام کی رہبریت کو قبول کرنا:

اس زمانہ میں شیعوں کی  ایک خاص توجہ امام حسن عسکری علیہ السلام پر متمرکز تھی اسی لئے حتی الامکان اپنی رقوم شرعیہ کو آپ کی خدمت میں ارسال کیا کرتے تھے، چنانچہ امام عسکری (ع)کے پاس خود اتنی رقوم شرعیہ جمع ہو گئیں تھیں کہ آپ اسے اپنے نمائندوں کو لوگوں کی مدد اور فقیروں کی استمداد کے لئے ارسال فرمایا کرتے تھے ۔[2] ظاہر ہے یہ بات حکومت وقت سے پوشیدہ نہیں تھی اسی لئے آپ کی سختیوں میں اضافہ کردیاگیا ۔

3 – امام عسکری کی شیعوں کی بھبودی کے لئے سیاسی کارکردگی :

امام حسن عسکری(ع)کی پوری توجہ اپنے اباء و اجداد کی طرح شیعوں کی بھبودی پر متمرکز تھی چنانچہ آپ نے اس پس منظر میں آپ کے جگہ جگہ اپنے وکیلوں کو معین کیا تاکہ وہ رقوم شرعیہ لوگوں سے وصول کریں اور وہیں کے شیعوں کے بھبودی اور دوسرےامور میں خرچ کریں، چونکہ یہ بات مسلم تھی کہ حکومت شیعوں کے لئے کوئی کام انجام نہیں دی رہی تھی یہی وجہ ہے آپ نے اس باب کو کھولا اور اس طریقہ کے شیعوں کے ثقافتی اور سیاسی امور کو انجام دیا دوسری جانب آپ اس طرح سے لوگوں کے ذہن کو غیبت صغری کے لئے ہموار فرما رہے تھے،امام کی انہیں امور کو حکومت نے مد نظر رکھتے ہوئے آپ پر فشار اور سختیوں کو اور زیادہ کردیا۔

4ـ حضرت بقيه الله الاعظم عجل الله تعالي فرجه الشريف کا آپ کی صلب میں ہونا:

متواتر اور متعدد روایات سے یہ بات مسلم تھی اور ہر مسلمان اس بات کو جانتا تھے کہ قائم آل محمد، حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ایک دن ظہور کرے گا اور تمام دنیا کو کہ اس وقت ظلم و جور سے لبریز ہوگی، اپنے عدل و انصاف سے بھر دے، اور دوسری طرف یہ بات بھی مسلمات میں تھی کہ وہ مسیحا امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے فرزند میں سے ہوگا، لہٰذا حکومت عباسی اس معاملہ کافی چوکنا تھے اور ساتھ ساتھ خطرہ کا احساس بھی کر رہے تھے۔جس کی وجہ سے آپ پر مزید سختیوں میں اضافہ کردیا گیا۔

مرحوم محدث قمی تحریر فرماتے ہیں: بنی عباس کے تین خلیفہ امام عسکری کو قتل کرنا چاہتے تھے کیونکہ کو ان کو معلوم تھا کہ منجی عالم آپ کی صلب میں ہے اسی لئے کئی بار آپ کو زندان میں بھیجا گیا اور قتل کی سازش رچی گئی۔[3]

امام عسکری (ع) حضرت حجت کی ولادت کے وقت فرمایا: دشمن یہ گمان کر رہا تھا کہ مجھے قتل کرکے میری نسل کو منقطع کردے مگر در حقیقت وہ اللہ کی قدرت کو نہیں جانتے کہ اس کی قدرت تمام قدرتوں پر بھاری ہے۔[4]

امام عسکری علیہ السلام سامراء میں تحت نظر رہنے اور حکومتِ وقت کی سختیوں میں گرفتار رہنے کے باوجود اپنی خاص روشوں سے اُن کی سازشوں کو نقش بر آب فرمادیتے تھے اور اپنے شیعوں کی جانی، مالی اور عقائد کے لحاظ سے حفاظت فرماتے تھے اور اس طرح معاشرے میں فسادات کی روک تھام اور راہِ حق کے پرچار میں اپنا بھرپور کردار ادا فرماتے تھے۔اُس دور کی بدعتوں اور انحرافات کے مقابلے میں حرمت کا رویہ قابل دید ہے کہ کس طرح حضرت فکری انحرافی مسائل(بدعتوں)کے مدمقابل راہِ حق کی حقانیت کو صاف و شفاف واضح فرمادیتے تھے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1] كشف الغمّهج 3، ص 197 - مناقب آل أبى طالب ، ج 4، ص 422 - كلینى ، اصول كافى ،ج 1، ص 503 - الارشاد، ص 338 - طبرسى ، أَعلام الورى ، ص 376 روضه الواعظین ، ص 274 - اعیان الشیعه، ج 2، ص 43

[2] الغيبة الطوسي، ص 212۔

[3] انوار البهيّه، ص 490

[4] بحارالانوار ، ج 50، ص 214

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 50