اخلاق وتربیت
جھو ٹ بڑے گناہوں میں سے ایک ہے اور مصلحتا جھوٹ بولنا بھی اس کی حرمت کو ختم نہیں کرتا، جھوٹ بولنے والے کے لئے دنیا میں بہت نقصانات اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔
گدائی کرنا یا بھیک مانگنا،لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا،غیرت وحمیت کے خلاف ہے اس سے خودداری ختم ہو جاتی ہے انسان کاہل اورکام چور ہو جاتا ہے سب کی نگاہوں میں حقیر ہو جاتا ہے، اس لیے اس کام سے سخت پرہیز کرنا چاہیے، ہمیں معاشرہ میں کوشش کرنی چاہیے کہ ایسا موحول ہی پیدا نہ ہونے دیں اور کسی کو مانگنے پر مجبور ہونا پڑے۔
خداوند متعال نہ صرف صالح وشائستہ انسان کی حفاظت کرتا ہے، بلکہ اسے برکتیں عطا کرتا ہے، اس کی دعائیں قبول کرتا ہے اور بلاؤں کو اس سے دور کرتا ہے، اس کے وجود کی خیر و برکت دوسروں، اس کی اولاد، محلہ والوں حتی ملک بھر کے لوگوں تک پہنچتی ہے۔
مومن کی دوستی اور دشمنی کا پیمانہ خداوند سبحان ہے اس لئے وہ ہمیشہ ہوشیار اور بیدار رہتا ہے، اپنے سارے راز، دل کی باتیں اپنے جگری دوست سے بھی نہیں کہتا کہ اس کا اصل محبوب اس کا رب ہے اور مؤمن اختلاف، نزاع و جھگڑے میں اپنے اخلاق و ایمان سے محروم ہونے والے اعمال نہیں کرتا کہ اس کا دشمن انسان نہیں شیطان ہے اور ساری نفرت اور جنگ اسی سے ہونی چاہئے۔
محبت اور شفقت اسلام کے دو انتہائی زریں اصول ہیں ہمیں پوری پوری دنیا میں ان کی نمائندگی کرنی چاہئے کیونکہ ایک مسلم شخص کے دین کا کمال ہی تب ہے کہ جب وہ اخلاقی اقدار کا پاس و لحاظ رکھتا ہو۔
ذراذرا سی بات پر غصہ ہو نا اور کہنا کہ ہم اسے زندگی بھر معاف نہیں کریں گے، بات نہیں کریں گے عام سی بات ہو گئی ہے، جبکہ آل رسول(ع) کا ارشاد ہے کہ مخاطب نے تمہیں گالی ہی کیوں نہ دیا ہو اگر وہ معافی مانگے تو فوراً معاف کردو۔
اپنے برادر مومن کے بارے میں بدگمانی سے کام نہیں لینا چاہیے، اور اگر کوئی آپسی نااتفاقی ہو بھی جائے تو قطع تعلق نہیں کرنا چاہیے اسی لیے معصومین سے مروی احادیث میں جا بہ جا مومن سے رابطہ بنائے رکھنے پر تاکید کی گئی ہے۔
اللہ کی صفات میں سے ایک صفت اس کا عالم ہونا ہے،علم انسان کا خاصہ اور امتیاز ہے لہٰذا علم کو انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے اس لیے طبیعتاً انسان علم کی جانب مائل نظر آتا ہے اور اس کے فوائد بے شمار ہیں۔
خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کر لے، اور یہ تبدیلی کا مرحلہ جتنی جلدی طے کرلیا جائے اتنا ہی اچھا ہے کیوں کہ صبح کا بھولا شام کو واپس پلٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔
خلاصہ: اگر انسان خدا سے جس طرح وہ چاہتا ہے محبت کرنے لگے تو اسے اس دنیا میں کوئی فکر نہیں ہوگی۔