خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کر لے، اور یہ تبدیلی کا مرحلہ جتنی جلدی طے کرلیا جائے اتنا ہی اچھا ہے کیوں کہ صبح کا بھولا شام کو واپس پلٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔
بعض اوقات انسان برائیوں میں اس قدر ملوث ہوجاتا ہے کہ پھر برائی اسکی عادت بن جاتی ہے اور چاہ کر بھی چوڑ نہیں پاتا اور شرماتا ہے کہ اب اس قدر آشنا ہوچکا ہے کہ نجات کی کوئی راہ نہیں ہے اور پس و پیش میں مبتلا رہتا ہے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے اچھا بننے اور صحیح راستے پر چلنے کی کوشش کریگا تو ساتھی کیا کہیں گے یا اگر شراب خانہ چھوڑ کر مسجد کا رخ کر لے گا تو لوگ کیا کہیں گے وغیرہ وغیرہ یہ ستر طرح کے خیالات شیطان ذہن میں ڈالتا رہتا ہے تاکہ انسان کو پس و پیش میں مبتلا رکھ کر گناہ کرواتا رہے، لیکن برائی کو جتنا جلدی چھوڑ دیا جائے اتنا ہی زیادہ بہتر ہے اور اسلام ایسے شخص کا حترام کرتا ہے اور کھلی باہوں سے اسکا استقبال کرتا ہے اسی تناظر میں امام سجاد(ع) فرماتے ہیں: لاَ تَمْتَنِعْ مِنْ تَرْكِ اَلْقَبِيحِ وَ إِنْ كُنْتَ قَدْ عُرِفْتَ بِهِ؛ برائی کے چھوڑنے میں کوئی تامل نہ کرو چاہے اس سے جتنا بھی آشنا ہوچکے ہو۔ [بحار الأنوار ،جلد 75 ،صفحه 161] گناہ اور برائیوں کی دلدل میں پھنس جانے کے باوجود انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیئے اور فورا اپنا دامن بچاتے ہوئے بغیر کسی تامل اور ہچکچاہٹ کے اس سے اپنا باہر آجانا چاہیئے۔
منبع: بحار الانوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، محمد باقر مجلسى، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ق۔
Add new comment