اللہ کی صفات میں سے ایک صفت اس کا عالم ہونا ہے،علم انسان کا خاصہ اور امتیاز ہے لہٰذا علم کو انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے اس لیے طبیعتاً انسان علم کی جانب مائل نظر آتا ہے اور اس کے فوائد بے شمار ہیں۔
اسلام نے انسان کو پہلا درس ہی علم کا دیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر پہلی وحی علم سے متعلق نازل کی گئی، اس کا اثر یہ ہواکہ اس امت کے افراد نے اپنے آپ کو علم کے لیے کھپادیا،ہمارے بزرگ علماء میں سے اکثر وبیشتر فقر وفاقہ کے شکار تھے، مگر ان کا فقر تحصیل علم کے لیے کبھی رکاوٹ نہ بنا، اور انہوں نے کبھی کسی کے سامنے اپنی محتاجی کو ظاہر بھی نہیں کیا، انہوں نے علم کی خاطر نہایت جاں گسل اور ہولناک مصائب وآلام جھیلے اور ایسے صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ہے کہ ان کی طاقت اور برداشت کے سامنے خود ”صبر“ بے چین اور بے قرار ہوگیا، اسی کے ساتھ وہ اپنی دل کی گہرائیوں کے ساتھ خداکی خوشنودی حاصل کرنے اورحمد وثنا میں مصروف رہتے، ہر وقت شکر گذاری ا ن کا امتیازی وصف تھا، ان کی قربانیوں نے انہیں دنیا میں بھی سرخ رو کیا، اور قیامت تک آنے والے طالبان علوم کے لئے بہترین نمونہ بنادیا، یہ سب کچھ انہوں نے صرف اور صرف اللہ کی رضاء اور علوم آل محمد کی ترویج کے لئے کیا،ان کی قربانیوں سے یہ بات عیاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ اسلامی علوم کی تدوین و تالیف؛ پُرفضا وشاداب مقامات نہروں کے کناروں اور سایہ دار درختوں کے چھاوں میں بیٹھ کر نہیں ہوئی، بلکہ یہ کام خون جگر کی قربانی دیکر ہواہے، اس کے لیے سخت گرمیوں میں پیاس کی ناقابل برداشت تکالیف اٹھانی پڑیں، اور رات رات بھرٹمٹاتے چراغ کے سامنے جاگنا پڑا ہے، بلکہ طلب علم کی راہ میں جانِ عزیز کی قربانی کوبھی انہوں کوئی بڑا کام تصور نہ کیا، کیونکہ انکی نگاہ طلبِ علم کی فضیلت پر تھی، اور طلب علم کا مرتبہ خدا کے حضور کیا ہے اس سے آگاہی تھی؛ امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں: لَوْ يَعْلَمُ اَلنَّاسُ مَا فِي طَلَبِ اَلْعِلْمِ لَطَلَبُوهُ وَ لَوْ بِسَفْكِ اَلْمُهَجِ وَ خَوْضِ اَللُّجَجِ؛ اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ طلبِ علم میں کیا فوائد ہیں تو خون بہاکر، اور دریا کی موجوں میں گھس کر بھی حاصل کرتے۔ [منیة المرید جلد 1 صفحه 110]اللہ نے طلب علم پر جو اجر وثواب رکھا ہے اس کا بیان ضبط تحریر سے باہر ہے، اتنی توجہ رہے کہ اتنی فضیلت کے باوجود اگر کوئی انسان علم حاصل کرنے میں کوتاہی برتتا ہے تو اس پر حیف ہے.
منبع: مُنْیةُ المُرید فی أدَبِ المُفیدِ وَ المُسْتَفید، شہید ثانی، مکتب الإعلام الإسلامی ۱۴۰۹ ق
Add new comment