ذراذرا سی بات پر غصہ ہو نا اور کہنا کہ ہم اسے زندگی بھر معاف نہیں کریں گے، بات نہیں کریں گے عام سی بات ہو گئی ہے، جبکہ آل رسول(ع) کا ارشاد ہے کہ مخاطب نے تمہیں گالی ہی کیوں نہ دیا ہو اگر وہ معافی مانگے تو فوراً معاف کردو۔
خداوند سبحان سے سبھی چاہتے ہیں کی وہ ہما رے گناہوں اور خطا ؤں کو معاف فر مادے،اور وہ رحیم وکریم معاف فرماتاہے لیکن مو من بندوں کی جو صفات اللہ تعالیٰ نے بیان فر ما ئی’’ غصہ کو پی جا نے والے‘‘،(وہ خوبی) اپنے اندر نہیں پیدا کر تے۔ ذرا سینے پر ہاتھ رکھ کر سو چیں کہ ہم کہاں ہیں؟اپنے مجرم کو معاف کر نا،ظالم کو معاف کر نا ،کسی نے گالی دی اُسے معاف کر دینا،کسی نے ما را اسے بخش دینا،حالانکہ نفس بدلہ لینے کا تقاضا کر تا ہے۔اسکے ساتھ نیکی کا عمل کر نا،اچھا سلوک کرنا، مہربانی کا برتاؤ کرنا، یہ بہت دل وجگر کا کام ہے، معاف کردینا نفس کو مغلوب کر دینا سب سے بڑی بہادری ہے، ہزا روں دین کے دشمنوں کو مار نا آسان ہے، نفسِ اما رہ کو ما رنا بہت مشکل ہے، نفس گناہوں پر آما دہ کر نے والاہے لیکن اس کے بر عکس دشمن کے ساتھ نیکی کا عمل کرنا،اچھا سلوک کرنا، مہر بانی کا بر تاؤ کرنا،یہ بہت ہمت کے کام ہیں۔امام سجاد(ع) فرماتے ہیں:إِنْ شَتَمَكَ رَجُلٌ عَنْ يَمِينِكَ ثُمَّ تَحَوَّلَ إِلَى يَسَارِكَ وَ اِعْتَذَرَ إِلَيْكَ فَاقْبَلْ عُذْرَهُ؛ اگر کوئی تمکو تمہارے داہنی طرف طرف گالی دے پھر بائیں طرف آکر معافی مانگ لے تو اس کو قبول کرلو۔ [بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام، جلد 75 ،صفحه 141] مومن کا حقیقی بھائی وہ ہے جو اس کی ان اچانک اور ناگہانی غلطیوں کو معاف کرے اور ان سے چشم پوشی کرے۔نہ یہ کہ چھوٹی سی چھوٹی غلطی دیکھنے پر اسے برا بھلا کہے۔کسی بھی انسان میں قدرت تحمل اور برداشت کاہونا ایک ایسی فضیلت ہے جس کے ذریعے انسان بہت سی مشکلات پر قابو پاتا اور بہت سی فضیلتوں کو حاصل کرتا ہے ۔جب انسان اپنے مومن بھائیوں کی خطاؤں کو بخشنے پر قادر ہو جائے اور ان کی غلطیوں پر انہیں برا بھلا نہ کہے تو یہ ا س کے متحمل مزاج ہونے کی دلیل ہے کیونکہ غلطیوں کو معاف نہ کرنے سے دوستی کا رشتہ کمزور ہوتا ہے۔
خداوند سبحان ہم سب کو اپنے اند ر یہ صفت پیدا کر نے اور عمل کرنے کی تو فیق عطا فر مائے۔آمین۔
منبع: بحار الانوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، محمد باقر مجلسى، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ق۔
Add new comment