اخلاق وتربیت
خلاصہ: ذکر انسان کی سعادت کے لئے بہت ضروری ہے، ذکر دو طریقہ کا ہوتا ہے ایک لفظی اور دوسرے معنوی، لفظی ذکر معنوی ذکر کے لئے مقدمہ ہوا کرتا ہے۔
اسلامی قانون تمام غیر مسلم لوگوں کو دو جماعتوں میں تقسیم کرتاہے۔ ایک وہ جس سے معاہدہ ہے ،دوسرے وہ جن سے معاہدہ نہیں ہے ۔ معاہدین جب تک تمام شرائط معاہدہ پر قائم رہیں گے، ان کے ساتھ شرائط کے مطابق معاملہ کیا جائے گا اورجنگ میں ان سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جائے گا-
خلاصہ:خوش اخلاقی ایک ایسی صفت ہے کہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس صفت کو اپنائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے نفس پر کام کرے تو خود بخود یہ صفت اس کے اندر آجائے گی ۔
دین اسلام نے بچوں کے حقوق میں سے ایک حق اس کی اچھی تعلیم و تربیت کو قرار دیا ہے کہ جس میں کوتاہی کی صورت میں وہ اللہ کے یہاں جواب دہ ہونا پڑے گا ۔ اس سلسلے میں ہمارے لئے ائمہ معصومین علیھم السلام کے اقوال اور سیرت ہمارے لئے مشعل راہ قرار پاسکتی ہیں۔
خلاصہ: بے شک اسلام انسان کی فلاح و بہبودی کے لئے آیا ہے، اس دین میں وہ تمام قوانین ملتے ہیں جس سے انسان کامیابی سے سرخ رو ہوتا ہے اور شرمندگی سے بچتا ہے، انھیں قوانین میں سے ایک مشورہ ہے جس کے ذریعہ انسان ہمیشہ کامیابی کی طرف گامزن رہتاہے مگر اسلام نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ مشورہ ان افراد سے نہ کرے جو بے تجربہ ، جاہل، بزدل، مفاد پرست، بخیل، حریص ہیں، ایسے افراد سے مشورہ کرنے سے سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
جس طرح بچہ غذا اور آب وہوا کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح وہ پیارمحبت کا بھی محتاج ہوتا ہے۔بچے کی روح وجان کے لئے پیار محبت بہترین روحانی غذا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بچہ چومنے اور گود میں لینے سے خوش ہو تا ہے۔اس لئے جو بچہ ابتداء سے ہی کافی حد تک اپنے والدین کے پیار ومحبت سے سرشار اور ان کے چشمۂ محبت سے سیراب رہتا ہے،اس کی روح شادرہتی ہے۔
خلاصہ: آدمی کا سکون اورراحت عورت کے وجود سے ہے خصوصا اگر عورت مہربان اور با وفا ہو،کونکہ نیک،مہربان اور پاکدامن بیوی دنیا کی تمام نعمتوں میں سے بہترین نعمت ہے اور ایسی خاتون اسلام کے نقطۂ نظر میں بہترین بیوی کا درجہ رکھتی ہے۔
خلاصہ: اسلام میں ایک مؤمن کو دوسرے مؤمن کا بھائی قرار دیا گیا ہے، اور ایک بھائی کے دوسرے بھائی پر بہت زیادہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ احادیث کی روشنی میں اگر کوئی اپنی بھائی کی فکر میں نہ ہو، تو وہ اہل بیت(علییہم السلام) کی ولایت کو قبول نہیں کرتا۔
خلاصہ: آنسو، گناہوں کے معاف اور دعاؤوں کے مستجاب ہونے کا ذریعہ ہے۔ شھادت، سب سے اچھی موت ہے، اور گریہ، شھادت کی موت کے لئے مقدمہ ہے۔
خلاصہ: اگرچہ آخرت میں انسان کے اعمال کا حساب و کتاب ہوگا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسی دنیا میں اپنا حساب نہیں کرسکتے، بلکہ ہم ابھی اپنا حساب اپنے نفس سے لے سکتے ہیں، حضرت موسی کاظم (علیہ السلام) کی حدیث کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ روزانہ انسان کو اپنے نفس سے حساب لینا چاہیے اور نیکی میں اضافہ کی توفیق کی دعا اور برائی پر استغفار کرنا چاہیے۔