بچوں کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

دین اسلام نے بچوں کے حقوق میں سے ایک حق اس کی اچھی تعلیم و تربیت کو قرار دیا ہے کہ جس میں  کوتاہی کی صورت میں وہ اللہ کے یہاں جواب دہ ہونا پڑے گا ۔ اس سلسلے میں ہمارے لئے ائمہ معصومین علیھم السلام کے اقوال اور سیرت ہمارے لئے مشعل راہ قرار پاسکتی ہیں۔

بچوں کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

بچے کسی بھی معاشرے کی امیدوں، آرزوؤ ں اور تمناؤں کا مرکز ہوتے ہیں، اس لیے کہ مستقبل کی تعمیر کا انحصار ان ہی پر ہوتا ہے۔ اس لیے بچے دوسرے تمام طبقات کی بہ نسبت زیادہ توجہ، زیادہ شفقت اور زیادہ محبت چاہتے ہیں۔ معاشرتی حوالے سے بھی بچوں کی اہمیت مسلّم ہے۔ اسی بناپر اسلامی تعلیمات میں جہاں والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت بیان کی گئی ہے وہاں بچوں کے حقوق بھی واضح کیے گئے ہیں۔ اسلام کی معاشرتی زندگی یک رخی نہیں، ہمہ گیر ہے۔ اس لیے والدین اگر اسلامی معاشرے میں بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں تو بچے اس اکائی کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں۔ یہ دونوں مل کر معاشرے کی صورت گری کرتے ہیں۔ بچے تو اور بھی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، کیوں کہ وہ نہ صرف والدین کی شخصی توسیع ہیں بلکہ معاشرے کے ارتقا اور اس کی متحرک زندگی کا عکس ہیں۔
           اسلام کی نظر میں بچوں کی اہمیت تربیت کئی وجوہ سے ہے۔ وہ مستقبل کے معمار ہیں، خاندان کی بقا کا ذریعہ ہیں، اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہیں، جماعت کی کثرت اور پہچان کا سبب ہیں، نیز اللہ تعالیٰ کی مدد کی ایک صورت ہیں۔ اسلام اپنے زیر اثر معاشرے میں اولاد کو اپنی معاشرتی اور سماجی اقدار کے تعارف، بقا اور تحفظ کا ذریعہ تصور کرتا ہے۔ اسلام اولاد کو نعمتِ عظمیٰ قرار دے کر اس کی نگہداشت کا حکم دیتا ہے۔ اسلام نے خاندان کا جو تصور دیا ہے اس کی ایک اہم اکائی اولاد کی صورت میں بچے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ بچوں کی تربیت میں کسی طرح کی کوئی کوتاہی نہ کی جائے اور اسکے لئے سب سے پہلی اور سب سے بہتر درس گاہ خود اس کا گھر ہے۔
درحقیقت گھر ایک ایسی جنت ہے جہاں بچہ باپ کی شفقت اور ماں کی محبت کی چھاؤں میں پرورش پاتا ہے۔ ماں کی گود کو بچے کی پہلی درس گاہ کہا جاتا ہے اور بچے کی بنیادی تربیت میں ماں کا کردار نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ گھر سے اگر بچوں کی تربیت صحیح خطوط پر ہو تو بیرونی دنیامیں بھی ایسے بچے آگے چل کر قابل اعتماد شخصیت بن سکتے ہیں۔ بچوں کی اچھی تربیت کے لئے والدین کی خصوصی توجہ درکار ہو تی ہے تاکہ معاشرے میں اچھی عادات کے بچے جنم لیں اور مجموعی طور پر معاشرے میں بہتری آئے۔
          چنانچہ پیغمبر اسلام ارشاد فرماتے ہیں: ’’ كُلُّكُمْ‏ رَاعٍ‏ وَ كُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ‘‘ [1] تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں بازپرس ہوگی ۔ حاکم ذمہ دار ہے اوراپنی رعایا کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے ، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔
          یہ امانت ایک عظیم ذمہ داری ہے جس میں کوتاہی کرنے یا ضائع کرنے سے اللہ تعالی نے خبردار فرمایا ہے ۔ارشاد باری ہے:’’ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْليكُمْ ناراً وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الْحِجارَةُ عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُو ‘‘(تحریم/6)اے ایمان والوں ! تم بچاؤاپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اس پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو بڑے تندخو، سخت مزاج ہیں۔ نافرمانی نہیں کر تے اللہ کی جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
                اس آیت مبارکہ سے واضح ہو گیا کہ مسلمانوں کو دوزخ کا ایندھن بننے کے سبب سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خود بھی دوزخ کا ایندھن بننے سے بچیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی بچائیں ان کی ایسی تربیت کریں کہ وہ نار جہنم سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچاسکیں۔ اپنے بچوں کے اخلا ق کی نگرانی کریں اور انہیں غفلت اور کو تاہی سے بچائیں۔ جن کاموں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس پر خود بھی عمل کریں اور اپنے اہل و عیال کو بھی اس کی تلقین کریں اور جن کاموں سے منع کیا ہے اس سے خود بھی بچیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی بچائیں۔[2]
ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اپنی اولاد کو دین کی تعلیم دیں اچھی باتیں سکھائیں اور بہترین ادب و ہنر اور اخلا ق سکھائیں ۔تربیت اولاد کتنا عظیم فریضہ ہے کہ پیغمبروں اور بزرگوں نے اللہ سے دعائیں مانگی ہیں۔ ’’رَبِّ هَبْ لي‏ مِنَ الصَّالِحين‘‘(الصافات/100) اے اللہ مجھے نیکو کار اولاد عطا فرما۔ پیغمبروں نے نیک سیرت اولاد کے لئے اللہ سے دعائیں مانگی ہیں ایسی اولادیں جن کو دیکھ کر ان کی آنکھیں او ر ان کے دل ٹھنڈے ہوں۔ جیسا کہ نیک اولاد کے سلسلے میں قرآن کریم میں یہ دعا بیان کی گئی ہے۔             
         اگر سیرت حضرت زہرا کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ کہ آپ کی مختلف فضیلتوں میں سے ایک فضیلت بچوں کی تعلیم و تربیت  ہے، کہ جسے آپ نے اپنی اور ذمہ داریوں کی طرح اسے بھی بطور احسن انجام دیا،جبکہ آپ ایسی ہستی کی مالک تھیں جوخودوحی الہی کی تربیت یافتہ تھیں گویا آپ یہ جانتی تھیں کہ حسن وحسین دونوں صاحبزادے اس تربیت کے محتاج نہیں ہیں جس تربیت کے محتاج دنیاکے عام بچے ہواکرتے ہیں پھربھی امت کوتعلیم وتربیت کاسلیقہ سکھانے کے لئے ظاہری طورپراپنے بچوں کوتعلیم وتربیت دیتی ہوئی نظرآتی ہیں، آپ نے ان دواماموں کی پرورش فرمائی جواسلام کے لئے کام آئے بچوں کی تربیت کواتنامہم سمجھتی تھیں کہ وقت نزع بھی بچوں کی نگہداری سے غافل نہیں رہیں۔
دنیا پرظاہرہے کہ امام حسین جیسی عظیم شخصیت نے حفاظت اسلام میں اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان کوراہ خدامیں پیش کرکے دین کوسرخروکیانیزہمیشہ ہمیشہ کے لئے ظلم وجبرکے طاغوتی دیوتاؤں کونابودکردیاآج امام حسین زندہ ہیں اور یزیدکے نام سے سب نفرت کرتے ہیں اتناہی نہیں اپنی بچیوں زینب وام کلثوم کی بھی تربیت ونگہداری اس طرح فرمائی جوبعدقتل حسین دین اسلام اور قربانی حسین اور مقصدحسین کوزندہ رکھنے میں معاون ثابت ہوئیں جناب زینب نے دربارکوفہ وشام میں اسلامی مقصدکواپنے خطبات کے ذریعہ اجاگرکیانیزظلم وجبرکے پیکرکوجڑسے اکھاڑپھینکا گویاتمام صنف نسواں کویہ پیغام دے رہی ہیں کہ عورت گھرکی چاردیواری میں کارنامہ حیات کوانجام دے سکتی ہے ماں کی آغوش ہی سے بچہ صاحب کمال وفضیلت اور بہترین کردارکامالک ہوسکتاہے لہذا خواتین کی ذمہ داری بچوں کی تربیت کے سلسلے میں اور بڑھ جاتی ہے۔
           ہاں اگرہمارے سامنے معصومہ کی سیرت نہ ہوتی توعام خواتین خداسے یہ اعتراض کربیٹھتیں کہ ہمارے لئے کسی رہبرکاانتظام نہیں کیالہذا خدانے عورتوں کواس اعتراض کاموقع ہی نہ دیافاطمہ کوسرکاررسالت کاجزوقراردے کرتمام عالم کی عورتوں کے بہترین نمونہ عمل قراردیاگویاعورتیں سیرت زہراکوعملی جامہ پہناتے ہوئے اپنی خوشگواراور بہترزندگی گزارسکتی ہیں اور اپنے قلوب کومنورکرسکتی ہے خداوندسے دعاہے کہ وہ ہمیں فاطمہ کی سیرت اور ان کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق عطافرمائے۔
      مگر صد حیف  کہ ٹیکنالوجی کے اس دَور میں والدین کی مصروفیت اور غفلت کے باعث بچّے اسلامی تربیت سے تو ایک طرف‘اخلاقی اور معاشرتی تربیت سے بھی محروم نظر آتے ہیں ۔ جس اسکول اور تعلیم پر اکتفا کرلیا جاتا ہے، اس کا مکمل زَور دُنیاوی علوم پر ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے بچّے دین سے بے زار نظر آتے ہیں اور والدین کے ساتھ اِن کے سلوک کا اندازہ روزمرہ کے واقعات سے کیا جاسکتا ہے ۔ آج نوجوانوں میں دِین سے دُوری کے رُجحان کی بڑی وجہ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید اوراسلامی تعلیمات سے دوری ہے ،جب کہ اسلام مکمل ضابطہ ٔحیات ہے ، یہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور آسانیاں پیدا کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔
     مطالب بالا سے یہ نتیجہ نکلتا ہے اسلام کا نقطۂ نظریہ ہے کہ چونکہ دیگر نعمتوں کی طرح بچے بھی اللہ کی ایک نعمت ہیں، اس لیے اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ ان کی پرورش اور تربیت پوری اہتمام سے کرنی چاہیے پھر ان کا درجہ امانت کا بھی ہے، اس لیے ان کی تربیت پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ان سے بدسلوکی اور ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں کوتاہی پورے معاشرے کے لیے مضر ہے۔

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] بحار الانوار، ج۷۲، ص۳۸، ،محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى و مجلسى ثانى،انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان‏، 1404 قمرى‏۔
[2] ترجمہ المیزان، ج۱۹، ص۵۷۳، طباطبايى سيد محمد حسين، مترجم: موسوى همدانى سيد محمد باقر،  انتشارات: دفتر انتشارات اسلامى جامعه‏ى مدرسين حوزه علميه قم، قم، 1374ش ، چاپ پنجم۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 102