بچوں کی تربیت میں محبت کا اثر

Sun, 04/16/2017 - 11:16

جس طرح بچہ غذا اور آب وہوا کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح وہ پیارمحبت کا بھی محتاج ہوتا ہے۔بچے کی روح وجان کے لئے پیار محبت بہترین روحانی غذا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بچہ چومنے اور گود میں لینے سے خوش ہو تا ہے۔اس لئے جو بچہ ابتداء سے ہی کافی حد تک اپنے والدین کے پیار ومحبت سے سرشار اور ان کے چشمۂ محبت سے سیراب رہتا ہے،اس کی روح شادرہتی ہے۔

بچوں کی تربیت میں محبت کا اثر

          انسان طبیعی اور فطری طور پر محبت کا طلب گار ہوتا ہے اور محبت ایک ایسی منفرد چیز ہے جس سے اسے اسیر کیا جس سکتا ہے اور بلندی کی طرف کی جایا جا سکتا ہے۔ محبت، نفس کی تربیت اور سخت دلوں کی نرمی کا ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ محبت ہی ہے جس سے کسی دوسرے انسان کے دل و دماغ کو مسخر اور فتح کیا جا سکتا ہے اور اس کے دل کو اپنے قابو میں کیا جا سکتا ہے اور انہیں طغیان و بغاوت اور برائیوں سے روک کر بندگی و حق و صداقت کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔
          تربیت اولاد میں بھی محبت کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ محبت، بچے اور والدین  کے درمیان ارتباط برقرار کرنے میں نہایت اہم اور کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ بہترین رابطہ وہ ہے جس کی اساس اور بنیاد محبت پر ہو اس لیے کہ یہ ایک فطری اور طبیعی راستہ ہے اس کے علاوہ دوسرے تمام راستے، جن کی بنیاد زور زبردستی اور بناوٹ وغیرہ پر ہوتی ہے، وہ سب غیر طبیعی اور غیر مفید رابطے ہیں۔
بچوں کی اہم ترین روانی و فطری ضرورت محبت، التفات اور توجہ حاصل کرنا ہے اور چونکہ والدین بچوں کے سب سے پہلے سر پرست اور مربی ہیں۔
           لہذا ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ  اپنی توجہ کو بچوں کی اس فطری ضرورت کی طرف مبذول کریں اور انہیں جاننا چاہیے کہ یہی وہ ضرورت ہے جو ان کی تربیت کی اساس اور بنیاد کو تشکیل دیتی ہے لہذا اس ضرورت کا پورا ہونا ان کے لیے روانی و فطری سلامتی، اعتماد بہ نفس اور والدین پر اعتبار کا سبب اور ذریعہ ہونے کی ساتھ ساتھ ان کی جسمانی سلامتی کا بھی باعث ہے۔
          بچوں اور نو جوانوں کو بوڑہوں سے زیادہ محبت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح سے کھانا پینا ان کے لیے ضروری ہے ٹھیک اسی طرح سے محبت اور توجہ بھی ضروری ہے۔ محبت کے ساتھ ان کے عواطف و احساسات کی بخوبی و با آسانی تربیت کی جا سکتی ہے اور انہیں اچھا انسان بنایا جا سکتا ہے۔ ماں اور باپ  ان کی اس ضرورت کو نظر انداز کر کے ان سے بہتر تعلقات استوار نہیں کر سکتے اور اپنا تربیتی پیغام اس تک نہیں پچا سکتے ۔ پہلے اسے بچے کا دل فتح کرنا پڑے گا تب کہیں جا کر اس کے دل و دماغ تک رسائی ممکن ہوگی۔ جب تک اسے یہ احساس نہ ہو جائے کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں وہ آپ کی بات پر کان نہیں دھرے گا۔
          چنانچہ ایک مقام پر امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’جو شخص اپنے بچے سے زیادہ محبت کرتا ہے اس پر خدا وند متعال کی خاص رحمت اور عنایت ہوتی ہے‘‘۔[1]
          دوسرے مقام پر آپ علیہ السلام  اس طرح ارشاد فرماتے ہیں:’’ موسی ابن عمران نے اپنی مناجات میں خدا وند متعال سے سوال کیا:پرور دگارا! تیرے نزدیک کون سا عمل بہتر ہے؟وحی ہوئی:بچوں سے پیار کرنامیرے نزدیک تمام اعمال سے برتر ہے،کیونکہ بچے ذاتی طور پرخدا پرست ہوتے ہیں اور مجھے محبت کرتے ہیں ۔اگر کوئی بچہ مر جاتا ہے تو میں اسے اپنی رحمت سے بہشت میں داخل کرتا ہوں‘‘۔[2]
          ایک مقام پر حضرت علی علیہ السلام رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت و الفت کے ساتھ تربیت کرنے کو اس طرح نقل فرماتے ہیں: ’’ میں بچہ ہی تھا،پیغمبر اکرم  مجھے اپنی آغوش میں بٹھاتے تھے اور اپنے سینہء مبارک پر لٹا تے تھے اورکبھی مجھے اپنے بسترمیں سلاتے تھے اور شفقت کے ساتھ اپنے چہرے کو میرے چہرے سے ملاتے تھے اور مجھے اپنی خوشبوسے معطر فرماتے تھے‘‘۔[3]       
       ایک مقام پر بچوں سے محبت کرنے کے ثواب کو رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طرح نقل فرماتے ہیں: ’’ اذَا نَظَرَ الْوَالِدُ الَ ی وَلَدِهِ فَسَرَّهُ كَانَ لِلْوَالِدِ عِتْقُ نَسَمَةٍ قِيلَ يَا رَسُولَ اللهِ وَ انْ نَظَرَ سِتِّينَ وَ ثَلَاثَمِائَةِ نَظْرَةٍ قَالَ اللهُ اكْبَرُ‘‘[4] رسول اکرم (ص) نے فرمایا کہ وہ باپ جو اپنی اولاد کو مہر و محبت کی نگاہ سے دیکھے اور اسے محبت کیساتھ نصیحت کرے اور اسے خوش کرے تو اللہ تعالیٰٰ اسے ایک غلام ازاد کرنے کا ثواب عطا کرتا ہے۔
          مطالب بالا سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اولاد کی تربیت ماں باپ کے اہم اور اولین فرائض میں سے ہے، اور اس بات کا ادراک ہر ذمہ دار ماں اور باپ کو ہے، مگر اکثر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے کو دبا کر رکھا جائے، ان پر سختی کی جائے وہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر بچے کو پیار کیا جائے تو وہ بگڑ جاتے ہیں،لہذا اس طرح کی سوچ کے  والدین بچوں کو صاحب عزت بنانے کے لئے خوب اس کی دھلائی کرتے ہیں۔ بچے میں عزت نفس پیدا کرنے کی بجائے اس کی عزت نفس مارتے ہیں۔ بچہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے اسے اس کی عادت پڑجاتی ہے کیونکہ اس کی عزت نفس مرجاتی ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے اسے اس کا اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے برا محسوس ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ عادت پختہ ہوجاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں بچوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کی سخت ممانعت ملتی ہے اور ساتھ ساتھ ان کی پیار محبت کے ساتھ تربیت کرنے کی تاکید ملتی ہے۔
          والدین کو چاہئے کہ نہ صرف اپنے بچوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آئیں بلکہ ان کو خاص ہونے کا احساس دلائیں۔ ان سے تم یا تو کہنے کی بجائے آپ کہہ کر بات کرنے کی عادت ڈالیں۔ اس کے دو فوائد ہیں کہ بچہ ہرکسی سے عزت کی امید رکھے گا۔ دوسرا دوسروں سے بھی اسی طرح مخاطب ہوگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ عادت مزید نکھر جائے گی۔ ماربچے میں آپ کا ڈر پیدا کرسکتی ہے لیکن عزت نہیں۔

 

.............................................................
حوالہ جات
[1] مکارم الاخلاق طبرسی،ص١١٥، طبرسى، حسن بن فضل‏، انتشارات:الشريف الرضى‏۔
[2] بحار الانوار،ج١٠٤،ص٩٧و١٠٥ ۔،محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى و مجلسى ثانى۔
[3] نہج البلاغہ ،ص٤٠٦۔
[4] بحار الانوار، ج۷۱، ۸۰،محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى و مجلسى ثانى۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
5 + 12 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 56