خوش اخلاقی

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ:خوش اخلاقی ایک ایسی صفت ہے کہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ  اس صفت کو اپنائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے نفس پر کام کرے تو خود بخود یہ صفت  اس کے اندر آجائے گی ۔

خوش اخلاقی

     اخلاقی کتب میں حسن خلق یا خوش اخلاقی کے دو معنی ذکر ہوئے ہیں:
ایک:ایسے اخلاقی  کمالات اور صفات کا مجموعہ کہ جنہیں انسان اپنی تربیت کے لیے اپناتا ہے۔[1]
دو:نرم لہجے  اور خوشگوار چہرے کےساتھ گفتگو کرنا۔[2]
ان دو معنی کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ خوش اخلاق وہ ہے کہ جس کا لہجہ نرم ہو اور کھلے ہوئے چہرے کے ساتھ پیش آئے۔
امام صادق (علیہ السلام) نے خوش اخلاقی کی تعریف میں فرمایا:
«حُسن خلق اسے کہتے ہیں کہ گفتگو میں نرمی ہو ، کلام سچا ہو ،خوش گوار اور کھلے چہرے کے ساتھ پیش آئے ۔»[3]
خوش اخلاقی کی اهمیت
دین اسلام میں حسن خلق اور نرم مزاجی کی بہت تاکید کی گئی ہے اور انسان کی زندگی کی کامیابی کے اصولوں میں سے اہم موضوع  حسن خلق ہے اسی طرح اگر آپ دیکھے تو جتنے بھی انبیاء آئے انسان کی ھدایت کے لیے تو سب میں یہ صفت پائی جاتی تھی یہی وجہ ہے کہ اس صفت کا ہونا بہت ضروری ہے ۔
 خداوند  متعال نے حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو حسن خلق کا مصداق قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ:
«وَ إِنَّکَ لَعَلى‏ خُلُقٍ عَظیم»؛[ قلم، 4.]‏ اور بےشک ہم نے تمہیں عظیم اخلاق کا مالک بنایا ہے ۔
اور ایک اور جگہ فرمایاکہ یہی صفت ہے کہ جس کی وجہ سے تم لوگوں میں کامیاب ہوئے ہو اور انہوں نے تمہاری دعوت کو قبول کیا ہے : «فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلیظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ».[ آل عمران، 159 ]
اسی وجہ سے منابع اسلامی کو اگر دیکھا جائے تو مختلف الفاظ کے ساتھ حسن خلق کی تاکید ہوئی ہے اور اس کی اہمیت بیان ہوئی ہے ۔ [4]
پیامبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  ارشاد فرماتے ہیں کہ: «الْاسْلامُ حُسْنُ الْخُلْقِ»؛[5] اسلام یعنی وہی حسن خلق ۔
یعنی اسلام ہی حسن خلق ہے ۔
حضرت امام على(علیہ السلام) کا ارشاد ہے کہ : «عُنْوَانُ صَحِیفَةِ الْمُؤْمِنِ حُسْنُ خُلُقِه‏»؛[6] با ایمان انسان کے عمل کو حسن خلق کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے ۔یعنی اعمال میں حسن خلق ایک ایسا عمل ہے کہ جسے بہترین اور اہمترین عمل کہا گیا ہے ۔[7]
زندگی میں خوش اخلاقی کو کیسے اپنایا جائے
بعض لوگ طبیعی طور پر خوش اخلاق ہوتے ہیں اور یہ نعمت کچھ کو حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی ان کے اعمال کی وجہ سے اور یہی وہ لوگ ہیں کہ جو ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے اوپر کام کیا ہے اور محنت کی ہے اور پھر اس صفت کو اپنے اندر جگہ دی ہے اور آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ انہیں بھی ملکہ حاصل ہو جاتا ہے۔[8]
اس صفت کو حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ وہ آیات اور روایات کہ جن میں حسن خلق کا ذکر ہوا ہے ان کو توجہ سے پڑھے ۔[9]
دوسری بات مسلسل تمرین ہے ؛[10] یعنی ہر انسان سے اچھے اخلاق سے پیش آئے اور جب بھی کسی انسان سے ملتا ہے تو اس کے بعد یہ سوچےکہ اس نے اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا ،کیا دین اسلام کے مطابق عمل کیا ہے یا نہیں ،مسلسل توجہ کرنے کے بعد خودبخود یہ صفت آ جائے گی ۔[11]
امام علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ :کسی چیز کا مسلسل انجام دینا ہی عادت کہلاتا ہے۔[12]
ایک اور جگہ فرمایا:کہ انسان کے اعضاء جوارح انسان کی عادت کے محتاج ہیں ۔[13]
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر انسان اچھے کام کو باربار انجام دے گا تو وہ اس کا ملکہ بن جائے گا اور اسی طرح اگر برے کام کو انجام دے گا تو وہ بھی اس کا ملکہ بن جائے گا پس کوشش کرنی چاہیے کہ اچھی صفت کو اپنائے تاکہ ایک کامیاب زندگی کہلائے۔
یہ سب دیکھنے کے بعد ہو سکتا ہے کہ کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ ہر وقت کیسے انسان خوش رفتار کر سکتا ہے جبکہ کبھی تو غمگین بھی ہوتا ہے  ۔
تو اس صورت میں بھی وہی حکم بتایا گیا ہے  اور کہا گیا ہے یہی صفت اس کا ساتھ دے گی تاکہ وہ غم اس سے دور ہوجائے اور یہی وجہ کہ مولائے کائنات امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں کہ :
مؤمن ہمیشہ خوش اخلاق ہو گا اگرچہ اس کے دل میں غم کا پہاڑ ہی کیوں نہ ہو  ۔[14]یعنی غم کا پہاڑ ہوتے ہوئے بھی اس کی صفت باقی رہے گی ۔
خوش اخلاقی کا دنیا اور آخرت میں فائدہ:
1.انسان کے گناہ جھڑتے ہیں ؛ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کا ارشاد گرامی ہے کہ: «حسن خلق سے انسان کے گناہ جھڑتے ہیں۔ »[15]
2. شب بیداری کا ثواب؛ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کا ارشاد گرامی ہے کہ: « حُسن خلق سے شب بیداری اور روزہ رکھنے کا ثواب ملتا ہے ۔»[16]
3. کینه نہیں رہتا‌؛ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کا ارشاد گرامی ہے کہ: «خوش‌اخلاقی سے کینہ ختم ہوتے ہیں »[17]
4. محبت پیدا ہوتی ہے ‏؛ حضرت امام  محمد باقر(علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں کہ : «خوش اخلاقی سے ایک تو خدا اور لوگوں کی محبت پیدا ہوتی ہے دوسرا انسان جنت میں جاتا ہے ۔» [18]
حضرت  امام  جعفر صادق(علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں کہ : «خوش اخلاقی سے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے اور انسان بہشت کا حق دار بنتا ہے ۔ »[19]
5. حضرت امام علی (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں کہ : «اچھے اخلاق سے بہتر کوئی زندگی نہیں ہے ۔»[20]
نتیجہ
اس پوری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خوش اخلاقی سے بہتر کوئی عمل نہیں کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ ایک تو اس عمل سے انسان کامیاب زندگی گزارتا ہے دوسرا بہشت کا بھی مستحق بن جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات:
[1]. مکارم شیرازى، ناصر، الأخلاق فى القرآن، ج ‏3، ص 120، مدرسة الامام على بن ابى طالب(ع)، قم، چاپ سوم؛ و نیز ر.ک: فیض کاشانى، محمد بن شاه مرتضى‏، المحجة البیضاء فى تهذیب الإحیاء، ج ‏5، ص 95، مؤسسه نشر اسلامی، قم، چاپ چهارم، 1376ش.
[2]. نراقى‏، ملا محمد مهدى، جامع السعادات‏، ج ‏1، ص 342، اعلمى‏، بیروت، چاپ چهارم، بی‌تا؛ الأخلاق فى القرآن، ج ‏3، ص 109.
[3]. شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، ج ‏4، ص 412، دفتر انتشارات اسلامی، قم، چاپ دوم، 1413ق.
[4]. الأخلاق فى القرآن، ج ‏3، ص 118.
[5]. متقی هندی، علاء الدین علی بن حسام الدین، کنز العمال فی سنن الأقوال و الأفعال، محقق: بکری حیانی، صفوة السقا، ج 3، ص 17، مؤسسة الرسالة، بیروت، چاپ پنجم، 1401ق.
[6]. شعیری، محمد بن محمد، جامع الأخبار، ص 107، مطبعة حیدریة، نجف، چاپ اول، بی‌تا؛ ابن شعبه حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول(ص)، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، ص 200، دفتر انتشارات اسلامی، قم، چاپ دوم، 1404ق.
[7]. الأخلاق فى القرآن، ج ‏3، ص 118.
[8]. الأخلاق فى القرآن، ج ‏3، ص 123.
[9]. جامع السعادات، ج ‏1، ص 343 – 344؛ الأخلاق فى القرآن، ج ‏3، ص 123.
[10]. ر.ک: المحجة البیضاء فى تهذیب الإحیاء، ج ‏5، ص 103 – 104.
[11]. «عَوِّدْ نَفْسَکَ فِعْلَ الْمَکَارِمِ»؛ لیثی واسطی، علی، عیون الحکم و المواعظ، محقق و مصحح: حسنی بیرجندی، حسین، ص 341، دار الحدیث، قم، چاپ اول، 1376ش.‏
[12]. «الْعَادَةُ طَبْعٌ ثَانٍ»؛ تمیمی آمدی، عبد الواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، محقق و مصحح: رجائی، سید مهدی،‏ ص 43، دار الکتاب الإسلامی، قم، چاپ دوم، 1410ق.
[13]. «لِلْعَادَةِ عَلَى کُلِّ إِنْسَانٍ سُلْطَانٌ»؛ عیون الحکم و المواعظ، ص 403.
[14]. وہی ، ص 226.
[15]. کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، محقق و مصحح: نعمة، عبد الله، ج ‏1، ص 135، دارالذخائر، قم، چاپ اول، 1410ق.
[16]. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج ‏2، ص 100، دار الکتب الإسلامیة، تهران، چاپ چهارم، 1407ق.
[17]. «حُسْنُ الْبِشْرِ یَذْهَبُ بِالسَّخِیمَة»؛ وہی ، ص 104.
[18]. محدث نوری، حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج ‏12، ص 344، مؤسسه آل البیت(ع)، قم، چاپ اول، 1408ق.
[19]. الکافی، ج 2، ص 103.
[20]. عیون الحکم و المواعظ، ص 539.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 30