خلاصہ: آدمی کا سکون اورراحت عورت کے وجود سے ہے خصوصا اگر عورت مہربان اور با وفا ہو،کونکہ نیک،مہربان اور پاکدامن بیوی دنیا کی تمام نعمتوں میں سے بہترین نعمت ہے اور ایسی خاتون اسلام کے نقطۂ نظر میں بہترین بیوی کا درجہ رکھتی ہے۔
اس بات میں کوشک نہیں، کہ دنیا کی تمام چیزیں انسان کے لئے سرمایۂ حیات ہیں، وہ نفع مند اور فائدے سے خالی نہیں اور انعامات الہٰیہ کا شمار بھی ممکن نہیں، لیکن ان تمام چیزوں میں اللہ نے انسان کے لئے جو بہترین سرمایہ پیدا کیا ہے، وہ ایک نیک سیرت ، پاکدامن ، اعلیٰ اخلاق وکردار کی حامل فرمانبردار بیوی ہے، جسے اسلام نے بہترین بیوی قرار دیا ہے ایسی خاتون جس کے متعلق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یوں فرمایا ہے:’’ خَيْرُ نِسَائِكُمُ الْعَفِيفَةُ الْغَلِمَة‘‘[1]بہترین عورت وہ ہے جو اپنے شوہر کی نسبت زیادہ شہوت پرست ہو لیکن نامحرموں کی نسبت عفیف اور پاکدامن۔
اسلامی نقطۂ نگاہ سے بہترین عورت وہ ہے جو سب سے زیادہ شوہر کی اطاعت کرے اور اس سے عشق و محبت اور آمادگی کا اظہار کرے لیکن اس کے مقابلے میں وہ عورت جو اپنے شوہر کی جنسی خواہشات کو پورا کرنے سے انکار کرے تو اسے بدترین عورت سمجھا گیا ہےاسی لئے امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:’’خَيْرُ النِّسَاءِ مَنِ الَّتِي إِذَا دَخَلَتْ مَعَ زَوْجِهَا فَخَلَعَتِ الدِّرْعَ خَلَعَتْ مَعَهُ الْحَيَاءَ وَ إِذَا لَبِسَتِ الدِّرْعَ لَبِسَتْ مَعَهُ الْحَيَاءَ‘‘[2]بہترین اور شائستہ ترین عورت وہ ہے جو خلوت میں شوہر کیساتھ ملے تو لباس کے ساتھ ساتھ شرم و حیا کو بھی دور پھینکے اور پوری محبت اور پیار کیساتھ اپنے شوہر کی جنسی خواہشات کو پورا کرے اور جب لباس پہن لے تو شرم و حیا کا لباس بھی زیب تن کرے اور اپنے شوہر کے سامنے جرأت اور جسارت سے باز آئے۔
ایک مقام پر امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کا یہ ارشاد ہے :’’فَانَّ الْمَرْاةَ رَيْحَانَةٌ ‘‘[3] عورت پھول کی مانند ہے، اسے چاہئے کہ ہمیشہ پھول کی طرح کھلتی رہےاور خاندانی گلستان میں خوشیوں کا باعث بنےدینی اور دنیاوی کاموں میں شوہر کی معاون بنےامام صادق (ع) فرماتے ہیں:’’ ثَلَاثَةٌ لِلْمُؤْمِنِ فِيهِنَ رَاحَةٌ دَارٌ وَاسِعَةٌ تُوَارِي عَوْرَتَهُ وَ سُوءَ حَالِهِ مِنَ النَّاسِ وَ امْرَأَةٌ صَالِحَةٌ تُعِينُهُ عَلَى أَمْرِ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ ابْنَةٌ أَوْ أُخْتٌ يُخْرِجُهَا مِنْ مَنْزِلِهِ بِمَوْتٍ أَوْ بِتَزْوِيجٍ‘‘[4] یعنی تین چیزوں میں مؤمن کے لئے سکون اور راحت ہے ان میں سے ایک وہ شائستہ عورت ہے جو اس کے دینی اور دنیاوی امور میں مددگار ثابت ہو کیونکہ عورت اگر چاہے تو مرد کے لئے دینی اور دنیاوی امور میں بہترین شوق دلانے والی بن سکتی ہےیہاں تک کہ مستحبات کی انجام دہی اور مکروہات کے ترک کرنے میں بھی چنانچہ روایت میں موجود ہے: ’’ فَسَأَلَ عَلِيّاً كَيْفَ وَجَدْتَ أَهْلَكَ قَالَ نِعْمَ الْعَوْنُ عَلَى طَاعَةِ اللَّهِ وَ سَأَلَ فَاطِمَةَ فَقَالَتْ خَيْرُ بَعْلٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ اجْمَعْ شَمْلَهُمَا وَ أَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِهِمَا وَ اجْعَلْهُمَا وَ ذُرِّيَّتَهُمَا مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ وَ ارْزُقْهُمَا ذُرِّيَّةً طَاهِرَةً طَيِّبَةً مُبَارَكَةً وَ اجْعَلْ فِي ذُرِّيَّتِهِمَا الْبَرَكَةَ وَ اجْعَلْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِكَ إِلَى طَاعَتِكَ وَ يَأْمُرُونَ بِمَا يُرْضِيكَ ثُمَّ أَمَرَ بِخُرُوجِ أَسْمَاءَ وَ قَالَ جَزَاكِ اللَّه ‘‘[5]حضرت زہرا(س)کی شادی کے بعد پیغمبر (ص)نے علی(ع)سے پوچھا: یا علی؛ فاطمہ(س) کو کیسا پایا؟ تو جواب دیا: فاطمہ(س) کو خدا کی فرمان برداری میں بہترین مددگار پایا، اسی طرح فاطمہ(س) نے بھی یہی جواب دیا کہ علی کو بہترین شوہر پایااس کے بعد رسول گرامی نے دعا کی، اے اللہ !ان دونوں کے امور کو ایک دوسرے کے موافق قرار دے، ان دونوں کے دلوں میں الفت پیدا کر، ان کو اور ان کی اولادوں کو جنت النعیم کا وارث قرار دے،اور ان دونوں کو پاک اور طیب اولاد عطا کر، اور ان کی ذریت پاک میں برکت نازل کرے، اور ان کو ایسا امام قرار دے جو تیرے حکم کے مطابق تیری بندگی کی طرف ہدایت پالیں اور یہ لوگ تیری رضایت کے مطابق حکم کریں پھر فرمایا: اے فاطمہ(س) اللہ تعالی تجھے جزا ئے خیر دے۔
ظاہر ہے کہ جب بیوی ایسی ہو تو اولاد بھی حسنینؑ اور زینب و کلثوم (ع)جیسی ہوتی ہے ہم اور آپ علی(ع) اور فاطمہ(س) جیسے تو نہیں بن سکتے لیکن ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرکے معاشرے کو اچھی اور صالح اولاد تو دے سکتے ہیں اس عظیم مقصدکے لئے ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی اولاد کو اصول وفروع دین کی تعلیم دیں اور مذہبی عبادات ورسوم جیسے نماز، روزہ، انفاق، تلاوت، نماز جماعت اور مذہبی مراسم، جلسے جلوس میں شرکت کرنے پر تأکید کریں۔
مطالب بالا اور روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام نے وہ بیوی جو شوہر کی فرمانبردار ، پاکدامن ، اعلی اخلاق کی حامل اور دین کے امور میں اپنے شوہر کی معاون و مدد گار ثابت ہواسے بہترین بیوی ہونے کا مقام دیا ہے۔البتہ اسکے علاوہ اسلام نے بہترین بیوی کے اور بھی صفات بیان کئے ہیں مگر مقالہ کی تنگی کو مد نظر رکھتے ہوئے ذکر نہیں کئے ہیں، انشاء اللہ اگلے مقالات میں مختلف عناوین کے تحت ذکر کرنے کی کوشش کریں گے۔
....................................................................................................
حوالہ جات:
[1] الکافی، ج۱۰، ص۵۷۲، كلينى، محمد بن يعقوب، محقق / مصحح: دارالحديث، ناشر: دار الحديث، قم، 1429ق، چاپ اول۔
[2] تہذیب الاحکام، ج۷، ص۳۹۹، طوسى، محمد بن الحسن، محقق / مصحح: خرسان، حسن الموسوى، ناشر: دار الكتب الإسلاميه، تھران، 1407 ق، چاپ چہارم۔
[3] الکافی، ج۱۱، ص۱۷۰، كلينى، محمد بن يعقوب، محقق / مصحح: دارالحديث، ناشر: دار الحديث، قم، 1429ق، چاپ اول۔
[4] بحار الانوار، ج۱۰۰، ص۲۱۸، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى،دار إحياء التراث العربي،بيروت، 1403 ق، چاپ دوم۔
[5] بحار الانوار، ج43، ص117، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى،دار إحياء التراث العربي،بيروت، 1403 ق، چاپ دوم۔
Add new comment