مؤمن بھائی کی مدد کرنا

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اسلام میں ایک مؤمن کو دوسرے مؤمن کا بھائی قرار دیا گیا ہے، اور  ایک بھائی کے دوسرے بھائی پر بہت زیادہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ احادیث کی روشنی میں اگر کوئی اپنی بھائی کی فکر میں نہ ہو، تو وہ اہل بیت(علییہم السلام) کی ولایت کو قبول نہیں کرتا۔

مؤمن بھائی کی مدد کرنا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     اسلام کی تعلیمات میں سے یہ ہے کہ اگر خداوند متعال سے کسی چیز کو طلب کرنا ہے تو پہلے دوسرے کے لئے طلب کریں, اس کے بعد اپنے لئے، روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ صرف اپنے لئے دعا مانگنا مکروہ ہے، جیسا کہ حضرت علی(علیه السلام) اس روایت میں فرمارہے ہیں: «فَأَحْبِبْ لِغَيْرِكَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ وَ اكْرَهْ لَهُ مَا تَكْرَهُ‏ لِنَفْسِك‏[۱] جس چیز کو اپنے لئے پسند کرتے ہو اس کو دوسروں کے لئے بھی پسند کرو، اور جو چیز تم کو اپنے لئے پسند نہیں ہے اسے دوسروں کے لئے بھی پسند مت کرو»۔ دوسری حدیث میں امام صادق(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: «مَنْ كانَ فی حاجَةِ أخیهِ الْمؤمِنِ المسلِمِ كانَ اللهُ فی حاجَتِهِ ما كانَ فی حاجَةِ أخیهِ[۲] جو کوئی اپنے مؤمن بھائی کی حاجت کو پورا کرنے کی فکر میں ہوتا ہے، اللہ تعالی اس شخص کی حاجت کو پورا کرنی کی فکر کرتا ہے»۔
     اہل بیت(علیہم السلام) کا چاہنے والا کبھی بھی اپنے مؤمن بھائیوں کو نہیں بھولتا، جب بھی کسی کو کوئی مشکل پیش آتی ہے تو اس کی اس مشکل کو پورا کرنے کی فکر میں ہوتا ہے، اگر اس کے بس میں اس کی مشکل کو حل کرنا ہوتا ہے تو وہ اسے حل کردیتا ہے اور اگر وہ اسے پورا نہیں کرسکتا تو دوسروں کے ذریعہ اس کی اس مشکل  کو حل کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں: «مَا آمَنَ بِاللَّهِ وَ لَا بِمُحَمَّدٍ وَ لَا بِعَلِيٍّ إِذَا أَتَاهُ أَخُوهُ الْمُؤْمِنُ فِي حَاجَةٍ فَلَمْ يَضْحَكْ فِي وَجْهِهِ فَإِنْ‏ كَانَتْ‏ حَاجَتُهُ‏ عِنْدَهُ‏ سَارَعَ‏ إِلَى‏ قَضَائِهَا وَ إِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ تَكَلَّفَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِهِ حَتَّى يَقْضِيَهَا لَهُ فَإِذَا كَانَ بِخِلَافِ مَا وَصَفْتُهُ فَلَا وَلَايَةَ بَيْنَنَا وَ بَيْنَهُ[۳] وہ شخص اللہ اور محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور علی(علیہ السلام) پر ایمان لایا ہے، جس نے اپنے مؤمن بھائی کی حاجت پر اس کا مذاق نہ اڑایا ہو، اگر اس میں اتنی استطاعت ہے کہ وہ خود اس شخص کی حاجت کو پورا کرسکتا ہے تو وہ خود اس کی حاجت کو پورا کردیتا ہے، اور اگر اس میں اس بات کی استطاعت نہیں ہے تو وہ دوسروں کے ذریعہ اسکی حاجت کو پورا کرتا ہے، اور اگر وہ اپنے مؤمن بھائی کی حاجت کی طرف متوجہ نہ ہو تو ہمارے اور اس کے درمیان کوئی ولایت نہیں ہے»
     اس حدیث کے مطابق اگر کوئی معصومین(علیہم السلام) کی ولایت کے اقرار کا دم بھرتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مؤمن بھائی کی حاجت کو پورا کرنے کی کوشش میں رہے۔ اگر وہ خود اس کی اس مشکل کو حل نہ کرسکتا ہو تب بھی اس لئے ضروری ہے کہ وہ اس کی مشکل کے لئے اپنے جاننے والوں میں رابطہ پیدا کرکے اس کی اس مشکل کو حل کرنے کی کوشش کرے اور اس وقت تک خاموش نہ بیٹھے جب تک اس کی وہ مشکل ح نہ ہوجائے۔ خدا ہم سب کو ایک دوسرے کی مشکلات کو ملکر حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نتیجہ:
     ایک شیعہ اور اہل بیت(علیہم السلام) سے محبت کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے مؤمن بھائیوں کی حاجت اور پریشانیوں کو دور کرنے کی فکر میں رہے۔ تاکہ اوپر جو امام صادق(علیہ السلام) نے جو فرمایا ہے کہ "جو اپنے موؤمن بھائی کی فکر میں نہ ہو اس کے اور ہمارے درمیان کوئی ولایت نہیں ہے" اگر ہم حقیقی طور پر معصومین(علیہم السلام) کی ولایت کا اقرار کرتے ہیں تو ہمارے لئے اس اقرار کا ثبوت پیش کرنے کا ایک ذریعہ اپنے مؤمن بھائی کی مدد کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] تحف العقول‏،حسن بن على‏، ص۷۴، جامعه مدرسين‏، ۱۴۰۴ق‏.
[۲] الامالي( للطوسي)، محمد بن الحسن‏، ص۹۷، دار الثقافة، ۱۴۱۴ق‏.
[۳] مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل‏،حسين بن محمد تقى‏، ج۱۲، ص۴۳۴، مؤسسة آل البيت(عليهم السلام‏)، ۱۰۸ق۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 25