اسلامی قانون تمام غیر مسلم لوگوں کو دو جماعتوں میں تقسیم کرتاہے۔ ایک وہ جس سے معاہدہ ہے ،دوسرے وہ جن سے معاہدہ نہیں ہے ۔ معاہدین جب تک تمام شرائط معاہدہ پر قائم رہیں گے، ان کے ساتھ شرائط کے مطابق معاملہ کیا جائے گا اورجنگ میں ان سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جائے گا-
اسلام نے حالتِ جنگ میں جن چیزوں کی بہت زیادہ تاکید ہے ، ان میں سے ایک عہد کی پاسداری بھی ہے؛ بلکہ عام حالات میں بھی وفائے عہد کو ایک مسلمان کے لیے اس کے ایمان کا لازمہ اور خاصہ قرار دیا گیا ہے ، ایک ایمان والے کے شایانِ شان نہیں کہ وہ وعدہ خلافی یا عہد شکنی کرے ۔
عہد و پیمان کی وفا کا مسئلہ اجتماعی زندگی کا سب سے بنیادی مسئلہ ہے اور اس کے بغیر کوئی اجتماعی ہم کاری اور تعلق ممکن نہیں ہے اور اگر انسان کھو دے تو اجتماعی زندگی اور اس کے ثمرات کو عملی طور پر کھو بیٹھتا ہے ۔ اسی بنا پر اسلام میں وفائے عہد کی اتنی زیادہ تاکید ملتی ہے کہ شاید ہی کوئی اور چیز ہو جس کی اتنی تاکید ملتی ہو اور جسے اتنی وسعت کے ساتھ بیان کیا گیا ہو کیونکہ اس کے بغیر معاشرہ ہرج و مرج اور عدم اطمینان کا شکار ہو جاتا ہے، جو نوع انسانی کے لئے سب سے بڑی اجتماعی مصیبت ہے ۔
نہج البلاغہ میں مالک اشتر کے نام اپنے فرمان میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :’’ فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْ فَرَائِضِ اللَّهِ شَيْءٌ النَّاسُ أَشَدُّ عَلَيْهِ اجْتِمَاعاً مَعَ تَفَرُّقِ أَهْوَائِهِمْ وَ تَشَتُّتِ آرَائِهِمْ مِنْ تَعْظِيمِ الْوَفَاءِ بِالْعُهُودِ وَ قَدْ لَزِمَ ذَلِكَ الْمُشْرِكُونَ فِيمَا بَيْنَهُمْ دُونَ الْمُسْلِمِينَ لِمَا اسْتَوْبَلُوامِنْ عَوَاقِبِ الْغَدْر‘‘[1] دنیا بھر کے لوگوں میں تمام تر اختلافات کے باوجود ایفائے عہد کی طرح کسی اور امر پر اتفاق نہیں ہے ۔ اسی لئے تو زمانہ جاہلیت کے بت پرست بھی اپنے عہد و پیمان کا احترام کرتے تھے ۔ کیونکہ وہ عہد شکنی کے درد ناک انجام کو جان چکے تھے ۔
دوسرے مقام پر امیر المومنین (علیه السلام) ہی سے منقول ہے ، آپ (علیه السلام) نے فرمایا: ’’ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَا يَقْبَلُ إِلَّا الْعَمَلَ الصَّالِحَ وَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الْوَفَاءَ بِالشُّرُوطِ وَ الْعُهُود ‘‘[2] خدا اپنے بندوں سے عمل صالح کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا اور ( اسی طرح ) خدا شرائط اور عہد و پیمان کے ( بارے میں بھی) ایفاء کے علاوہ کچھ قبول نہیں کرتا ۔
پیغمبر اکرم ﷺسے منقول ہے ، آپ نے فرمایا: ’’ لادین لمن لا عھد لہ ‘‘[3] جو شخص اپنے عہد و پیمان کا وفا دار نہیں اس کا کوئی دین نہیں ۔
لہٰذا ایفائے عہد ایک ایسی بات ہے جس میں افرادِ انسانی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے چاہے طرف مقابل مسلمان ہو یا کوئی غیر مسلم۔ اصطالح کے مطابق یہ انسانی حقوق میں سے ہے نہ کہ برادرونِ دینی کے حقوق میں سے ۔
غدر، نقض عہد اور معاہدوں پر دست درازی کرنے کی برائی میں بے شمار احادیث آئی ہیں جن کی بناپر یہ فعل اسلام میں بدترین گناہ قرار دیا گیا ہے۔ عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا:’’ من قتل معاهدا لم يرح رائحة الجنّة، و إنّ ريحها توجد من مسيرة أربعين عاما‘‘[4] جو کوئی کسی معاہدہ کو قتل(توڑ دے) کرے گا، اسے جنت کی بو تک نصیب نہ ہو گی حالانکہ اس کی بو چالیس برس کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔
عام حالات میں پابندیِ عہد کا اس قدر سختی کے ساتھ اسلام مطالبہ کرتا ہے ،ظاہر ہے کہ جنگ کی حالت میں اس کی اہمیت مزید ہوجاتی ہے؛ اس لیے خصوصاً دورانِ جنگ یہ تاکید کی گئی ہے کہ دشمن خواہ بد عہدی کیوں نہ کرے ،مسلمانوں کے لیے ہرگز یہ اجازت نہیں کہ قبل از اطلاع ان کی جانب پیش قدمی کریں یا بغیر انقطاع عہد کی اطلاع کے ان پر چڑھ دوڑیں؛ بلکہ ان کی جانب سے عہد شکنی کے باوجود بھی مسلمانوں کے لیے یہ ضروری قراردیا گیا ہے کہ وہ پہلے صاف اور صریح الفاظ میں معاہدہ کے خاتمہ کا اعلان کردیں ، پھر اس کے بعد ہی وہ جنگی کاروائی کر سکتے ہیں، ارشاد خداوندی ہے : ”اور اگر تجھ کو ڈر ہو کسی قسم سے دغا کا تو پھینک دے ان کا عہد ان کی طرف ایسی طرح پر کہ ہو جا تم اور وہ برابر، بیشک اللہ کو خوش نہیں آتے دغا باز۔“ (الانفال :۵۸)اس آیت کریمہ میں قانون کی ایک اہم دفعہ بتلائی گئی ہے جس میں معاہدہ کی پابندی کی خاص اہمیت کے ساتھ یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی وقت معاہدہ کے دوسرے فریق کی طرف سے خیانت یعنی عہد شکنی کا خطرہ پیدا ہوجائے تو یہ ضروری نہیں کہ ہم معاہدہ کی پابندی کو بدستور قائم رکھیں؛ لیکن یہ بھی جائز نہیں کہ معاہدہ کو صاف طور پر ختم کر دینے سے پہلے ہم ان کے خلاف کوئی اقدام کریں؛ بلکہ صحیح صورت یہ ہے کہ ان کو اطمینان و فرصت کی حالت میں اس سے آگاہ کر دیا جائے کہ تمہاری بدنیتی یا خلاف ورزی ہم پر ظاہر ہوچکی ہے، یا یہ کہ تمہارے معاملات مشتبہ نظر آتے ہیں؛ اس لیے ہم آئندہ اس معاہدہ کے پابند نہیں رہیں گے تم کو بھی ہر طرح اختیار ہے کہ ہمارے خلاف جو کارروائی چاہو کرو!۔
اس روشن اور عادلانہ اُصول کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جنگ کے قوانین اصلیہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو سخت سے سخت ضرورت کی حالت میں بھی اپنے عہد پر قائم رہنا چاہیے۔ بدعہدی سے خواہ کتنا ہی بڑا فائدہ پہنچتا ہو اور وفائے عہد سے کتناہی شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، اسلام بہر صورت میں اپنے پیرووں کوتاکید کرتاہے کہ اس فائدے کو چھوڑ دیں اور اس نقصان کو برداشت کر لیں۔
.............................................................................
حوالہ جات
[1] نہج البلاغہ، ص442، شريف الرضي، محمد بن حسين، محقق / مصحح: صالح، صبحي، انتشارات: هجرت، قم، 1414 ق، چاپ اول۔
[2] الكافي، كلينى، ج1، ص182، محمد بن يعقوب، محقق / مصحح: غفارى على اكبر و آخوندى، محمد، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1407 ق، چاپ چهارم۔
[3] سفينة البحار، ج6، ص565، شیخ عباس قمی، انتشارات: اسوہ، قم، 1414 ق، چاپ اول۔
[4] مفردات ألفاظ القرآن، ص۳۷۰، راغب اصفهانى، حسين بن محمد،دار القلم- الدار الشامية، بيروت-دمشق، 1412 ق، چاپ اول۔
Add new comment