ہم اپنی نیکیوں اور برائیوں کا حساب خود کریں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اگرچہ آخرت میں انسان کے اعمال کا حساب و کتاب ہوگا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسی دنیا میں اپنا حساب نہیں کرسکتے، بلکہ ہم ابھی اپنا حساب اپنے نفس سے لے سکتے ہیں، حضرت موسی کاظم (علیہ السلام) کی حدیث کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ روزانہ انسان کو اپنے نفس سے حساب لینا چاہیے اور نیکی میں اضافہ کی توفیق کی دعا اور برائی پر استغفار کرنا چاہیے۔

ہم اپنی نیکیوں اور برائیوں کا حساب خود کریں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عام سوچ کے مطابق انسان سمجھتا ہے کہ دنیا میں اچھے اچھے کام کرتے رہیں اور کوشش کریں کہ گناہ نہ کریں اور نیکیوں اور برائیوں کا موت کے بعد ہوگا۔ یہ سوچ کچھ حد تک صحیح ہے، مگر اس کے ساتھ غفلت بھی پائی جاتی ہے، وہ غفلت یہ ہے کہ حساب صرف قیامت کے دن نہیں، بلکہ اِسی دنیا میں ہم اپنا حساب و کتاب کرسکتے ہیں، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنی نیکیوں اور برائیوں کا حساب لیں تا کہ نیکیوں میں مزید اضافہ ہو اور گناہوں سے پرہیز کیا جائے، لہذا حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کا فرمان گرامی ہے: "لَيس مِنّا مَن لَم يُحاسِبْ نَفْسَهُ في كُلِّ يَومٍ ، فإنْ عَمِلَ خَيرا اسْتَزادَ اللّه َ مِنهُ و حَمِدَ اللّه َ علَيهِ ، و إنْ عَمِلَ شَيئا شَرّا اسْتَغْفَرَ اللّه َ و تابَ إلَيهِ"[1]، "جو شخص روزانہ اپنے نفس کا حساب نہ لے، وہ ہم میں سے نہیں ہے، پس اگر نیکی کرے تو اللہ سے اس کے بڑھنے کی دعا مانگے اور اس پر اللہ کی حمد کرے، اور اگر برائی کرے تو اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرے اور توبہ کرے"۔

حساب و کتاب قرآن کریم کی چند آیات کی روشنی میں:
حساب میں باریک بینی: "وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ"[2]، "ہم قیامت کے دن صحیح تولنے والے میزان (ترازو) قائم کر دیں گے۔ پس کسی شخص پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور اگر کوئی (عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا تو ہم اسے (وزن میں) لے آئیں گے اور حساب لینے والے ہم ہی کافی ہیں"۔
محاسبہ اور سخت عذاب: "وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُّكْراً"[3]، "اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی تو ہم نے ان کا سخت محاسبہ کیا اور انہیں انوکھی (سخت) سزا دی"۔
دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال اور حساب میں آسانی: "فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ . فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيراً. وَيَنقَلِبُ إِلَىٰ أَهْلِهِ مَسْرُوراً"[4]، "پس جس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ تو اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔ اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوش و خرم لوٹے گا"۔

محاسبہ نفس کی ترغیب روایات کی روشنی میں:
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: "أكْيَسُ الكَيِّسِينَ مَن حاسَبَ نَفْسَهُ و عَمِلَ لِما بَعدَ المَوتِ ، و أحْمَقُ الحَمْقى مَنْ أتْبَعَ نَفْسَهُ هَواهُ ، و تَمنّى على اللّه ِ الأمانِيَّ"[5]، "سب سے ہوشیار شخص وہ ہے جو اپنے نفس کا حساب لے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور سب سے زیادہ بیوقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنی خواہش کا پیروکار بنادے اور اللہ سے آرزوئیں مانگے"۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "حاسِبوا أنْفُسَكُم بأعْمالِها ، و طالِبوها بأداءِ المَفْروضِ علَيها ، و الأخْذِ من فَنائها لبَقائها ، و تَزَوّدوا و تَأهَّبوا قَبلَ أنْ تُبْعَثوا"[6]، "اپنے نفس کے اعمال کا حساب لو اور اس سے چاہو کہ وہ اپنے فرائض کو اداء کرے، اور فانی جگہ سے باقی جگہ کے لئے فائدہ اٹھاؤ، اور (موت اور قیامت میں) اٹھائے جانے سے پہلے زاد راہ لے لو اور تیار ہوجاؤ"۔
حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے: "ابنَ آدَمَ ، لا تَزالُ بِخَيرٍ ما كانَ لكَ واعِظٌ مِن نَفسِكَ ، و ما كانَتِ المُحاسَبَةُ مِن هَمِّكَ ، و ما كانَ الخَوفُ لَكَ شِعارا ، و الحُزنُ لَكَ دِثارا . ابنَ آدمَ ، إنّكَ مَيِّتٌ وَ مبعوثٌ و مَوقوفٌ بَينَ يَدَيِ اللّه ِ عَزَّ و جلَّ و مَسؤولٌ فأعِدَّ جَوابا"[7]، "اے فرزند آدم، تو مسلسل خیر میں رہے گا جب تک تمہارا اپنا اندرونی واعظ (نصیحت کرنے والا) ہو اور جب تک تو اپنے محاسبہ کا اہتمام کرتا رہے اور جب تک خوف تمہارا زیرجامہ رہے اور جب تک غم، تمہارا اوڑھنا رہے۔ اے فرزند آدم، یقیناً تو مرجائے گا اور اٹھایا جائے گا اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں کھڑا کیا جائے گا اور تم سے سوال کیا جائے گا لہذا کوئی جواب تیار کرلو"۔

عمل اور محاسبہ نفس کا دن رات سے تعلق:
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سےروایت ہے: "ما من يوم يأتي على ابن آدم الّا قال ذلك اليوم يا ابن آدم انا يوم جديد و انا عليك شهيد فافعل بى خيرا و اعمل في خيرا اسهّل لك في يوم القيامة فانك لن ترانى بعدها أبدا"[8]، "کوئی دن فرزند آدم پر نہیں آتا مگر وہ دن کہتا ہے: اے فرزند آدم، میں نیا دن ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں، میرے ذریعے نیکی کرلو اور مجھ میں نیک عمل کرلو تا کہ میں قیامت کا دن تمہارے لیے آسان کردوں، کیونکہ آج کے بعد مجھے ہرگز نہیں دیکھوگے"۔
نیز حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے منقول ہے: "ان اللّيل اذا اقبل نادى مناد «بصوت» يسمعه الخلائق الّا الثّقلين يا ابن آدم انّى خلق جديد انّى على ما فيّ شهيد فخذ منّى فانّى لو قد طلعت الشّمس لم ارجع الى الدنيا ثمّ لم تزدد فيّ حسنة و لم تستعتب‏ فيّ من سيّئة و كذلك يقول النّهار اذا ادبر اللّيل‏"[9]، "جب رات ہوتی ہے تو منادی ایسی آواز سے ندا کرتا ہے جسے ثقلین (جن و انس) کے علاوہ سب مخلوقات سنتی ہیں کہ اے فرزند آدم، میں نئی مخلوق ہوں، جو کچھ میرے اندر رونما ہو اس پر میں گواہ ہوں، لہذا مجھ سے (میری فرصتیں) لے لو، کیونکہ جب سورج کا طلوع ہوگیا تو میں دنیا میں واپس نہیں آوں گی، پھر تم مجھ میں اپنی نیکیوں پر کوئی نیکی نہیں بڑھا سکتے اور مجھ میں کسی گناہ کی مذمت نہیں کرسکتے اور جب رات چلی جائے تو دن یہی بات کرتا ہے"۔

نتیجہ:سب انسانوں کو قیامت درپیش ہے جس میں ان سے حساب لیا جائے گا، اُس حساب و کتاب سے پہلے جو اللہ تعالی ہم سے لے گا، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ سے حساب لیتے رہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ روزانہ کچھ دیر محاسبہ نفس پر لگائیں تاکہ قیامت میں ہمارا حساب آسان ہوجائے۔ نیز نیک عمل پر انسان کو اللہ سے یہ طلب کرنا چاہیے کہ اللہ اس کے نیک عمل کی توفیق میں اضافہ کرے اور اسے اس نیکی پر اللہ کی حمد کرنا چاہیے اور اگر اس نے برائی کی ہو تو اس پر استغفار اور توبہ کرنا چاہیے اور واضح ہے کہ استغفار اور توبہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آئندہ اس گناہ کا ارتکاب نہیں کرے گا۔  محاسبہ نفس کا پھَل اور حاصل یہ ہے کہ انسان کی نیکیاں روزانہ بڑھتی جائیں گی، نیک اعمال زیادہ سے زیادہ خالص ہوتے جائیں گے اور برائیاں رفتہ رفتہ کم ہوجائیں گی۔ ایسا تب ہوگا کہ محاسبہ نفس اسی طریقہ سے کیا جائے جیسے اہل بیت (علیہم السلام) نے حکم دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] الاختصاص، 26۔
[2] سورہ انبیاء، آیت47۔
[3] سورہ طلاق، آیت8۔
[4] سورہ انشقاق، آیت7،8،9۔
[5] بحارالانوار، ج70، ص69۔
[6] غرر الحكم، 4934.
[7] تحف العقول، ص280۔
[8] محاسبه نفس يا روش پيشگيرى از وقوع جرم (ترجمه محاسبة النفس)، ص51۔
[9] محاسبه نفس يا روش پيشگيرى از وقوع جرم (ترجمه محاسبة النفس)، ص51۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 38