خلاصہ: ذکر انسان کی سعادت کے لئے بہت ضروری ہے، ذکر دو طریقہ کا ہوتا ہے ایک لفظی اور دوسرے معنوی، لفظی ذکر معنوی ذکر کے لئے مقدمہ ہوا کرتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لفظی ذکر کا قلبی توجہ کے ساتھ گھرا رابطہ ہوا کرتا ہے جیسے کہ ہم کوئی لفظ زبان پر لانے سے پہلے اپنے دل میں اس کے معنی کا تصور کرتے ہیں اس کے بعد اس کو اپنی زبان کے ذریعہ لوگوں کے درمیان بیان کرتے ہیں، ایک عاقل انسان کبھی معنی کو مدّ نظر رکھے بغیر بات نہیں کرتا کیونکہ کلمہ یا لفظ اس کے معنی کی حکایت کرتا ہے۔
جب ہم لوگوں سے گفگو کرتے ہیں تو ہمارا مقصد لوگوں کو ہماری بات سمچھانا ہوا کرتا ہے لیکن جب ہم اللہ کی یاد کرنے کے عنوان سے ذکر کا ورد کرتے ہیں تو ہمارا مقصد یہ نہین ہوتا کہ ہم اس کے معنی کسی کو سمجھائیں بلکہ ہم اللہ کی یاد میں ذکر اس لئے کرتے ہیں تاکہ اس ذکر کے ذریعہ ہماری روح متأثر ہو۔
لفظی ذکر کے ذریعہ انسان کے اندر خدا کی یاد کا ایک ادنی مرتبہ پیدا ہوتا ہے اسی ادنی مرتبہ کے ذریعہ انسان آھستہ آھستہ خدا کی یاد کے عالی درجہ تک اپنے آپ کو پہونجا سکتا ہے۔ لیکن اگر اپنے آپ کی صرف لفظی ذکر پڑھتا رہے خداوند متعالی کی طرف اس کی ذارا برابر بھی توجہ نہ ہو خدا سے بالکل غافل ہو تو اس کے ذکر کرنے کا مرحلہ ہی نہیں آتا ہے جیسا کہ بعض لوگ ہمیشہ تسبیح گھماتے رہتے ہیں تسبیح اور اس کے فائدہ کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ بعض دعاؤں اور اذکار کو ایک خشک عادت کے طور پر پڑھتے رہتے ہیں اور ان کے معنی و مفہوم کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اس لحاظ سے ان دعاؤں کے ذریعہ ہمارے اندر کسی بھی قسم کی تبدیلی رونما نہیں ہوتی، ممکن ہے ہم ابتداء میں توجہ کے ساتھ کسی کام کو شروع کریں اور کسی ذکر کو زبان پرجاری کریں مثال کے طور پر ہم سنتے ہیں کہ ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ تسبیحات فاطمہ زہر(سلام اللہ علیہا) یا فلاں ذکر کا بہت زیادہ ثواب ہے اس لحاظ سے اس تسبیح کو توجہ کے ساتھ پڑھتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ ہماری توجہ کم ہوتی جاتی ہے یہاں تک ان کلمات کو بطور عادت کسی قسم کی توجہ کے بغیر زبان پر جاری کرتے ہیں، البتہ ''اللہ اکبر'' ''لا الہ الا اللہ'' جیسے اذکار کو توجہ کے بغیر بھی کہنا بیکار نہیں ہے لیکن بغیر توجہ کے ساتھ ان کا کہنا انسان کے اندر مطلوب روحانی اثر پیدا نہیں کرتے۔
وہ ذکر انسان کی روح و نفس پر اثر کرتا ہے جو ذکر نماز پڑھنے والے کے لئے اطمینان قلب کا باعث ہو وہ ذکر انسان کی روحی و معنوی بلندی کا سبب اور دنیوی و مادی افکار کو چھوڑنے کا باعث اور آخرت اور خدا کی نعمتوں کے وسیع ہونے کا ذریعہ ہوتا ہے جو انسان کا خدا کے ساتھ رابطہ اور مضبوط کرے جو اس کے معنی و مفہوم کو ملحوظ رکھ کر خدائے متعال کو حاضر و ناظر سمجھ کر زبان پر جاری ہوتا ہے، یہ وہی ذکر ہے جس کی توصیف میں خدائے متعال فرمارہا ہے:«اِنَّمَا الْمُومِنُونَ الَّذِینَ اِذَاذُکِرِ اﷲُ وَجِلَتْ قُلُوبُھُمْ[سورۂ انفال، آیت:٢] صاحبان ایمان درحقیقت وہ لوگ ہیں جن کے سامنے ذکر خدا کیا جائے تو ان کے دلوں میں خورِ خدا پیدا ہو»، بیشک مؤمنین وہ ہیں کہ جب خدا کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل لرزنے لگتے ہیں۔
نتیجہ کے طور پر حضرت علی(علیہ السلام) نے رسول خدا (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے اصحاب کے بارے میں جو فرمایا اس کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ ہم بھی ان کی طرح اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کریں یہ کہکر اپنا دامن صاف نہ کرلیں کہ کہاں وہ اور کہاں ہم حضرت علی(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: « لقدرأیت اصحاب محمد(صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) فما اَریٰ احداً منکم یشبھھم' لقد کانوا یصبحون شُعثاً غُبَراً وقد باتوا سُجداً و قِیَاماً یُراوحُونَ بین جِبٰاھِھِم وخُدودِھِم و یَقِفون علی مثل الْجمر من ذکر مَعٰادھم کأَنَّ بین اعیُنِھم رکب المِعزیٰ من طول سجودھم؛ میں نے حضرت(محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اصحاب کو دیکھا ہے، میں تم میں سے کسی میں بھی ان کی شباہت کو نہیں دیکھ رہا ہوں، وہ صبح سویرے بکھرے ہوئے بال اور غبار آلود ہوا کرتے تھے کیونکہ وہ رات بھر قیام و سجود کی حالت میں بیدار رہتے تھے، کبھی اپنی پیشانی کو اور کبھی اپنے رخسار کو خاک پر رکھتے تھے، قیامت کی یاد میں چنگاری اور آگ کے شعلہ کی طرح جلتے ہوئے کھڑے رہتے تھے گویا ان کی پیشانیوں پر طولانی سجدوں کے سبب بکریوں کے زانوؤں کے مانند گٹے پڑجاتے تھے»، اس حدیث میں امام(علیہ السلام) نے ذکر کے بعض مصادیق کو بیان کیا ہے اگر ہم اپنے آپ کو معصومین(علیہم السلام) کی اتباع کرنے والا کہتے ہیں تو ہمارے اندر ذکر کی یہ کیفیت موجود ہونی چاہئے ورنہ صرف زبان سے کہنے سے ہمارا کوئی بھی فائدہ ہونے والا نہیں ہے، خدا ہم سب کو ذکر کرنے والوں کے ساتھ محشور فرمائیں۔
..............
حوالہ:
[١] محمد ابن حسین رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۴۳، ھجرت ، قم، ۱۴۱۴۔
Add new comment