ادیان و مذاھب
حضرت عمر نے سیدہ فاطمہ ع کا گھر جلایا – اہل سنت کتب (عربی) سے کچھ حوالاجات پیش خدمت ہیں۔
حضرت ابوبکر کے فضائل میں ایک جعلی اور من گھڑت حدیث روایت کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ: خداوند متعال نے میرے قلب میں کچھ نہیں ڈالا، مگر یہ کہ میں نے اسے ابوبکر کے سینہ میں نہ ڈال دیا ہو۔ یہ حدیث دلالت کے لحاظ سے اہل سنت کے مورد قبول تاریخ شواہد کے منافی ہے، اور سنی علماء نے اسے باطل اور جعلی سمجھا ہے۔
حضرت عائشہ کے فضائل کے لیے جعلی احادیث کے جو الفاظ نقل کیے گئے ہیں ان میں سے«اے حمیرا!مجھ سے بات کرو!» «عائشہ سے اپنے مذہب کا ایک یا دو تہائی حصہ لو» ہے کہ جسے سنی تفسیر اور تاریخ کی کچھ کتابیں حضرت عائشہ کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے ان فقروں کو بیان کرتی ہیں۔ اگرچہ یہ مشہور ہیں، لیکن انکی کوئی ضعیف سند تک موجود نہیں ہے۔
اہل سنت کے بعض علماء اور دانشوروں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری کے دوران نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی کے موضوع کو بڑی شدو مد سے نقل کیاہے۔[1][تاریخ الاسلام، ذہبی] اور اسے ایک بڑی فضیلت یا خلافت کے لئے سند شمار کرکے یہ کہنا چاہا ہے کہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز میں ان کی جانشینی پر راضی ہوں تو لوگوں کو ان کی خلافت اور حکمرانی پر اور بھی زیادہ راضی ہونا چاہیئے جو ایک دنیوی امر ہے۔[2][ ابن جوزی، ص۴۹-۵۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۲، بخاری، ج۱، ص۱۷۴، ۱۷۵، ۱۸۳؛ احمد بن حنبل، ج۶، ص۲۳۴]
وہابیت عمل کو ایمان کی ایک شرط سمجھتی ہے، لہذا اگر کوئی شہادتین زبان پر جاری کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، لیکن وہ استغاثے کا بھی قائل ہو تو اسے کافر سمجھا جاتا ہے؛ کیونکہ وہ خدا کے سوا کسی اور سے درخواست کرکے کفر کی وادی میں داخل ہوگیا ہے۔ جبکہ دیوبندی ایسی بات نہیں کہتے ہیں اور عمل کو ایمان کے لیے شرط نہیں سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ اس سلسلے میں شاہ اسماعیل کا نظریہ ظاہر کرتا ہے۔وہابیت عمل کو ایمان کی ایک شرط سمجھتی ہے، لہذا اگر کوئی شہادتین زبان پر جاری کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، لیکن وہ استغاثے کا بھی قائل ہے تو اسے کافر سمجھا جاتا ہے؛ کیونکہ وہ خدا کے سوا کسی اور سے درخواست کرکے وادئ کفر میں داخل ہوگیا ہے۔ جبکہ دیوبندی ایسی بات نہیں کہتے ہیں اور عمل کو ایمان کے لیے شرط نہیں سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ اس سلسلے میں شاہ اسماعیل کا نظریہ ظاہر کرتا ہے۔
وہابیت ایک ایسا لفظ ہے کہ جسے وہابی بزرگوں کے ذریعہ استعمال میں لایا گیا، جیسے عبد العزیز بن باز، نے اس کا استعمال کرتے ہوئے اسے ایک بہترین لقب مانا ہے؛ تاہم، موجودہ دور کے وہابی افراد اپنے لیے اس لٖفظ کے استعمال سے ناخوش نظر آتے ہیں۔
ام المؤمنین خدیجة الکبریٰ (س) تاریخ اسلام کی وہ عظیم خاتون ہیں کہ جنکے گھر سے اسلام کا آغاز ہوا اور جہاں وحی الہٰی کا مسلسل نزول ہوتا رہا اور وہابیوں نے اسی گھر کو بیت الخلاء میں تبدیل کردیا جو انکی اسلام دشمنی کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
خدا جسم و جسمانیت سے پاک و پاکیزہ ہے یہ تو سبھی جانتے ہیں لیکن آئیے وہابیت کے خدا سے ملیئے۔
ناصبی کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ ناصبی وہ ہے جو امام علی(ع) یا اہل بیت(ع) میں سے کسی ایک کے ساتھ دشمنی رکھتا ہو اور اپنی دشمنی کا اظہار بھی کرتا ہو، اس ضمن میں تمام مسالک و مذاہب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ایسا شخص قابل مذمت اور دین سے خارج ہے۔
شیوخِ صحوہ، ان وہابی مبلغین کے ایک گروہ کو کہا جاتا ہے کہ جو روایتی وہابی شیخوں سے مختلف اپنا ایک الگ نظریہ رکھتےہیں، یہ گروپ سید قطب اور محمد قطب کے نظریات سے متاثر اورسیاسی اور معاشرتی امور میں اپنا ایک جدا نکتۂ خیال رکھتاہے۔