اہل سنت کے بعض علماء اور دانشوروں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری کے دوران نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی کے موضوع کو بڑی شدو مد سے نقل کیاہے۔[1][تاریخ الاسلام، ذہبی] اور اسے ایک بڑی فضیلت یا خلافت کے لئے سند شمار کرکے یہ کہنا چاہا ہے کہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز میں ان کی جانشینی پر راضی ہوں تو لوگوں کو ان کی خلافت اور حکمرانی پر اور بھی زیادہ راضی ہونا چاہیئے جو ایک دنیوی امر ہے۔[2][ ابن جوزی، ص۴۹-۵۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۲، بخاری، ج۱، ص۱۷۴، ۱۷۵، ۱۸۳؛ احمد بن حنبل، ج۶، ص۲۳۴]
اہل سنت کے بعض علماء اور دانشوروں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری کے دوران نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی کے موضوع کو بڑی شدو مد سے نقل کیاہے۔[1][تاریخ الاسلام، ذہبی] اور اسے ایک بڑی فضیلت یا خلافت کے لئے سند شمار کرکے یہ کہنا چاہا ہے کہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز میں ان کی جانشینی پر راضی ہوں تو لوگوں کو ان کی خلافت اور حکمرانی پر اور بھی زیادہ راضی ہونا چاہیئے جو ایک دنیوی امر ہے۔[2][ ابن جوزی، ص۴۹-۵۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۲، بخاری، ج۱، ص۱۷۴، ۱۷۵، ۱۸۳؛ احمد بن حنبل، ج۶، ص۲۳۴]
جواب :یہ استدلال کئی جہتوں سے قابل رد ہے :
1۔ تاریخی لحاظ سے کسی بھی صورت میں ثابت نہیں ہے کہ نماز میں حضرت ابو بکر کی جانشینی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اجازت سے انجام پائی ہو ۔بعید نہیں ہے کہ انہوں نے خود یا کسی کے اشارہ پر[3][سنن ابن ماجه، محمد بن يزيد قزويني(273 هـ )ـ مسند احمد ( 241 هـ )، ج 6 ، ص 47.] یہ کام انجام دیا ہو۔[4][ احمد بن حنبل، ج۱، ص۳۵۶؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۹۶] اس امر کی تائید اس واقعہ سے ہوتی ہے کہ حضرت ابو بکر نے ایک بار اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اجازت کے بغیر آپ کی جگہ کھڑے ہوکر نماز کی امامت خود شروع کردی تھی ۔
اہل سنت کے مشہور محدث امام بخاری اپنی خود کی صحیح میں نقل کرتے ہیں : ایک دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبیلہ بنی عمرو بن عوف کی طرف گئے تھے ۔ نماز کا وقت ہوگیا ابو بکر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جگہ پر کھڑے ہوگئے اور نماز کی امامت شروع کردی جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسجد میں پہنچے اور دیکھا کہ نماز شروع ہوچکی ہے تو نمازکی صفوں کو چیرتے ہوئے محراب تک پہنچ گئے اور نماز کی امامت خود سنبھال لی اور ابو بکر پیچھے ہٹ کر بعد والی صف میں کھڑے ہوئے۔ [5][ صحیح البخاری،حدیث:۶۸۴]۔
2۔ اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ حضرت ابو بکر نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے آپ کی جگہ پر نماز پڑھائی ہوگی تو نماز میں امامت کرنا ہرگز حکومت اور خلافت جیسی انتہائی اہم ذمہ داری کی صلاحیت کےلئے دلیل نہیں بن سکتا ۔
کیونکہ نماز کی امامت کےلئے قرائت کے صحیح ہونے اور احکام نماز جاننے کے علاوہ کوئی اور چیز معتبر نہیں ہے ( اور اہل سنت علماء کی نظر میں عدالت تک کی شرط نہیں ہے ) لیکن خلافت اسلامیہ کے حاکم کےلئے سنگین شرائط ہیں جن میں سے کسی ایک شرط کو نماز کی امامت کےلئے ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے ،جیسے : اصول اور فروع دین پر مکمل دسترس اور کامل آگاہی رکھنا،احکام اور حدود الٰھی کے تحت مسلمانوں کے امور کو چلانے کی پوری صلاحیت رکھنا ،گناہ اور خطا سے مبرّا ہونا۔
اس استدلال سے پتا چلتا ہے کہ استدلال کرنے والے نے امامت کے منصب کو ایک معمولی منصب تصور کرلیا ہے اور اس سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانشینی کوایک عام حکمرانی کے سوا کچھ اور نہیں سمجھا ہے اسی لئے وہ کہتا ہے کہ : جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابو بکر کو دینی امر کےلئے منتخب کرلیا تو لازم اور ضروری ہے کہ ہم ان کی خلافت پر اور بھی زیادہ راضی ہوں ، جو ایک دنیوی امر ہے۔
اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کہنے والے نے اسلامی حکمرانی سے وہی معنی مراد لیا ہے جو دنیا کے عام حکمرانوں کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے ۔ جبکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خلیفہ ظاہری حکومت اور مملکت کے امور کو چلانے کے علاو کچھ ایسے معنوی مناصب اور اختیارات کا بھی مالک ہوتا ہے جو عام حکمراں میں نہیں پائے جاتے ۔
جناب إبن حزم اندلسی کا یہ بیان ان کی كتاب الفصل، جلد ۴، صفحہ ۸۹ میں ملاحظہ فرمائیں:
لَيْسَ كل من اسْتحق الْإِمَامَة فِي الصلاة يسْتَحق الْإِمَامَة فِي الْخلَافَة۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر وہ شخص جو نماز کی امامت کا استحقاق رکھتا ہو ، وہ خلافت کا بھی حقدار ہوسکتا ہے۔
عنوان الكتاب: الفصل في الملل والأهواء والنحل، وبهامشه الملل والنحل (ط. صبيح)، ج۴/ص۸۹- المؤلف: ابن حزم – الشهرستاني، الناشر: محمد علي صبيح، سنة النشر: ۱۳۴۸، عدد المجلدات: ۵
3۔ اگر نماز کیلئے حضرت ابو بکر کی امامت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام کے حکم سے انجام پائی تھی ، تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکرم بخار اور ضعف کی حالت میں ایک ہاتھ کو حضرت علی(ع)کے شانے پر اور دوسرے ہاتھ کو ” فضل بن عباس “ کے شانے پر رکھ کر مسجد میں کیوں داخل ہوئے اور حضرت ابو بکر کے آگے کھڑے ہوکر نماز کیوں پڑھائی؟ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ عمل امامت کےلئے حضرت ابو بکر کے تعین سے میل نہیں کھاتا۔اگر چہ اہل سنت علماء نماز میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شرکت کی اس طرح توجیہ کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتداء کی اور لوگوں نے ابو بکر کی اقتداء کی ۔ اسی صورت میں نما زپڑھی گئی ۔[6][ صحیح بخاری ، ج 2، ص 22]
واضح ہے کہ یہ توجیہ بہت بعید اور ناقابل قبول ہے ، کیونکہ اگر یہی مقصود تھا تو کیا ضرورت تھی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکرم اس ضعف و بخار کی حالت میں اپنے چچیرے بھائیوں کا سہارا لیکر مسجد میں تشریف لا تے اور نماز کےلئے کھڑے ہوتے؟ بلکہ اس واقعہ کا صحیح تجزیہ یہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکرم اپنی اس کاروائی سے حضرت ابو بکر کی امامت کو توڑ کر خود امامت کرنا چاہتے تھے۔
4۔ بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ نماز کےلئے حضرت ابو بکر کی امامت ایک سے زیادہ بار واقع ہوئی ہے اور ان سب کا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اجازت سے ثابت کرنا بہت مشکل اور دشوار ہے کیونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکرم نے اپنے بیماری کے آغاز میں ہی اسامہ بن زید کے ہاتھ میں پرچم دیکر سب کو رومیوں سے جنگ پر جانے اور مدینہ ترک کرنے کا حکم دے دیا تھا ۔ اور لوگوں کے جانے پر اس قدر مصر تھے کہ مکرر فرماتے تھے :”جھّزو جیش اسامة “اسامہ کے لشکر کو تیار کرو۔[7]
اورجو افراد اسامہ کے لشکر میں شامل ہونے سے انکار کررہے تھے ، آپ ان پر لعنت بھیج کر خدا کی رحمت سے محروم ہونے کی دعا فرماتے تھے۔[8][ شرح المواقف، میر سید شریف ایجی، ج 8، ص 376]
ان حالات میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابوبکر کو امامت کے فرائض انجام دینے کی اجازت کیسے دیتے ؟!
5۔ مؤرخین اور محدثین نے اقرار کیا ہے کہ جس وقت حضرت ابو بکر نماز کی امامت کرنا چاہتے تھے ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکرم نے حضرت عائشہ ، ابو بکر کی بیٹی سے فرمایا:”فانّکنّ صواحب یوسف“” تم مصر کی عورتوں کے مانند ہو جنہوں نے یوسف(ع)کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا“[9][صحيح البخاري (ط. دار ابن كثير)،ج۱/ ص۱۶۶-بَابٌ: حَدُّ المَرِيضِ أَنْ يَشْهَدَ الجَمَاعَةَ، المؤلف: محمد بن إسماعيل البخاري أبو عبد الله، الناشر: دار ابن كثير – دمشق بيروت،سنة النشر: ۱۴۲۳ – ۲۰۰۲، عدد المجلدات: ۱ ]اب دیکھنا چاہیئے کہ اس جملہ کا مفہوم کیا ہے، اور اس سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصد کیا تھا؟
یہ جملہ اس امر کی حکایت کرتا ہے کہ حضرت عائشہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تنبیہ کے باوجود اسی طرح خیانت کی مرتکب ہوئی تھیں ، جس طرح مصر کی عورتیں خیانت کی مرتکب ہوئیں تھی اور زلیخا کو عزیز مصر سے خیانت کرنے پر آمادہ کرتی تھیں۔
جس خیانت کے بارے میں یہاں پر تصور کیا جاسکتا ہے ، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ حضرت عائشہ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکرم کی اجازت کے بغیر اپنے باپ کو پیغام بھیجا تھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جگہ پر نماز پڑھائیں۔
اہل سنت کے علماء ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام کے اس جملہ کی دوسرے انداز میں تفسیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں :
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اصرار فرماتے تھے کہ حضرت ابو بکر آپ کی جگہ پر نماز پڑھائیں ، لیکن حضرت عائشہ راضی نہیں تھیں ، کیونکہ وہ کہتی تھیں کہ لوگ اس عمل کو فال بد تصور کریں گے اور حضرت ابو بکر کی نما زمیں امامت کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موت سے تعبیر کریں گے اور حضرت ابو بکر کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موت کا پیغام لانے والا تصور کریں گے “
کیا یہ توجیہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عمل ( مسجد میں حاضر ہوکر امامت کو سنبھالنے ) سے میل کھاتی ہے؟!!
بہرحال ، جیسا کہ بیان کیا گیا ،حضرت ابوبکر کی پیشنمازی کرنا خلافت پر دلیل نہیں ہے ، [جیسا کہ اہل سنت کے علماء خود اعتراف کرتے ہیں کہ ابوبکر اور عمر بن الخطاب کی خلافت کے لئے کوئی نص اور روایت موجود نہیں ہے ، اور حضرت ابوبکر کو ثقیفہ بنی سعیدہ میں کچھ لوگوں کے توسط منتخب کیا گیاتھا! یہ جاننا دلچسپ ہے کہ خودحضراتِ ابوبکر اور عمر نے بھی کبھی اس بات کا دعوا نہیں کیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خلیفہ بنایا ہے!] ایسی باتیں صرف ان پڑھ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں کہ حضرت نے پیشنمازی فرمائی تھی ، بصورت دیگر علماء ان دلائل پر ہنسیں گے ، جس طرح سنی علماء ایسےدلائل کی تردید کرتے ہیں اور پیشنمازی کو خلافت پر دلیل نہیں مانتے، جیسا کہابن تیمیہ،وہابیوں کے عظیم علماء میں سے ایک، واضح طور پر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کی جگہ پر نماز پڑھنا اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ ہے۔
وَأَيْضًا فَالِاسْتِخْلَافُ فِي الْحَيَاةِ نَوْعُ نِيَابَةٍ، لَا بُدَّ مِنْهُ لِكُلِّ وَلِيِّ أَمْرٍ، وَلَيْسَ كُلُّ (مَنْ) يَصْلُحُ لِلِاسْتِخْلَافِ فِي الْحَيَاةِ عَلَى بَعْضِ الْأُمَّةِ يَصْلُحُ أَنْ يُسْتَخْلَفَ بَعْدَ الْمَوْتِ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَخْلَفَ فِي حَيَاتِهِ غَيْرَ وَاحِدٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَصْلُحُ لِلْخِلَافَةِ بَعْدَ مَوْتِهِ.[10][منهاج السنة النبوية ، أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس ، ج ۷ ، ص ۳۳۹ . الناشر : مؤسسة قرطبة الطبعة الأولي ، ۱۴۰۶ ، تحقيق : د. محمد رشاد سالم ، عدد الأجزاء : ۸]
.................
منابع و مأخذ
[1] تاریخ الاسلام، ذهبی، دارالکتب العلمیة، بیروت: ج2، ص584۔
[2] ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، آفة اصحاب الحدیث، بہ کوشش علی حسینی میلانی، قم، ۱۳۹۸ق۔
[3] سنن ابن ماجه، محمد بن يزيد قزويني(273 هـ )ـ مسند احمد ( 241 هـ )، ج 6 ، ص 47.
[4] احمد بن حنبل، ج۱، ص۳۵۶؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۹۶۔
[5] صحیح البخاری،بَابُ مَنْ دَخَلَ لِیَؤُمَّ النَّاسَ،فَجَاء…الخ،رقم:۶۸۴ مع فتح الباری۲؍۱۶۷، صحیح مسلم،رقم:۴۲۱،سنن أبی داؤد،رقم:۹۴۰۔
[6] صحیح بخاری، کتاب الصلاه، ج۱، ص۸۵و۹۲؛ صحیح مسلم، ج۱، ص۸۵ و ۹۲؛ مسند احمد بن حنبل، ج۶، ص۲۱۰؛ سنن نسائی، ج۳، ص۹۹ و ۱۰۰ و …
[7] فتح الباری، ج 8، ص 152: «و کان ممّن انتدب مع أسامة کبار المهاجرین و الأنصار منهم أبو بکر و عمر...»۔
[8] شرح المواقف، میر سید شریف ایجی، ج 8، ص 376۔
[9] صحيح البخاري (ط. دار ابن كثير)،ج۱/ ص۱۶۶-بَابٌ: حَدُّ المَرِيضِ أَنْ يَشْهَدَ الجَمَاعَةَ، المؤلف: محمد بن إسماعيل البخاري أبو عبد الله، الناشر: دار ابن كثير – دمشق بيروت،سنة النشر: ۱۴۲۳ – ۲۰۰۲، عدد المجلدات: ۱
[10] منهاج السنة النبوية ، أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس ، ج ۷ ، ص ۳۳۹ . الناشر : مؤسسة قرطبة الطبعة الأولي ، ۱۴۰۶ ، تحقيق : د. محمد رشاد سالم ، عدد الأجزاء : ۸
Add new comment