ادیان و مذاھب
زیارت قبوراسلامی اور شیعہ کی ان رائج سنتوں میں سے ہے کہ جسے بعض قرآن کریم کی آیات ، پیامبر(ص) اور معصومین کی روایات کی بنا پر مستحب سمجھا جاتا ہے ۔
پیغمبراکرم(ص) کی سیرت، صحابہ کا عمل ،مسلمانوں کی سیرت اور اسی طرح اہل سنت کے مذاہب اربعہ اور شیعہ مذہب کے علما کے فتاوا زیارت قبور کی فضیلت کے واضح ترین دلائل میں سے ہے.
اہل سنت جو کہ اہل بیتؑ سے محبت پر ایمان رکھتے ہیں، ناصبی نہیں ہیں،شیعہ فقہا کے نزدیک، نواصب نجس اور حکم کفار میں ہیں؛ اسی لیے ان کے ہاتھوں کا ذیبحہ کھانا، انہیں صدقہ دینا اور ان کیساتھ شادی بیاہ جائز نہیں ہے اور وہ مسلمانوں سے وراثت نہیں پا سکتے۔
اہل بیتؑ کے فضائل کا انکار، آئمہؑ پر لعن و سب اور اسی طرح اہل تشیع کے ساتھ دشمنی کو ناصبیت کے مصادیق میں سے قرار دیا گیا ہے۔
بعض معاصر محققین کے بقول، ناصبیت کا آغاز قتل عثمان سے ہوا اور بنو امیہ کی حکومت میں یہ چیز رائج ہو گئی۔اہل بیتؑ کے فضائل کی اشاعت پر پابندی، شیعوں کا قتل عام اور منبروں سے امام علیؑ پر سب و شتم کو اس دور کی ناصبیت کے اثرات میں سے شمار کیا گیا ہے۔
اہل سنت والجماعت کلامی ابحاث کے لحاظ سے مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں؛ کلامی اور اعتقادی ابحاث میں استدلال اور عقل کے راستے طے کرنا،عقلی ابحاث سے اجتناب اور الفاظ احدیث اور اقوال صحابہ پر اکتفاء کرناان بڑے عوامل میں سے ہیں جن کی وجہ سے یہ مکتب مختلف گروہوں میں تقسیم ہوئےہیں؛ان مختلف گروہوں کی جانب مختصر توضیح کے ساتھ اشارہ کرتے ہیں۔
اہل سنت فقہی اعتبار سے مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں؛ فقہی لحاظ سے حنفی ،شافعی، مالکی اور حنبلی میں تقسیم ہوتے ہیں؛ حنفی ابو حنیفہ، مالکی مالک بن انس ، شافعی محمد بن ادریس شافعی اور حنبلی احمد بن حنبل کے پیروکار ہیں؛جنکے بارے میں ہم مندرجہ ذیل نوشتہ میں مختصر وضاحت پیش کرتے ہیں۔
جب ہم اہل سنت و جماعت کے لفظی استعمالات کو تاریخی لحاظ سے دیکھتے ہیں تو ہمیں بہت سے نکات کی جانب توجہ کرنی چاہئے؛موجودہ دور میں اہل سنت و جماعت اور دوسرے گروہوں کے درمیان عملی طور پر صدر اسلام کےخلفاء کی تقسیم بندی میں فرق نظر آتا ہے؛ اس طرح سے کہ اہل سنت و جماعت خلفاءکی خلافت کی مشروعیت پر اتفاق نظر رکھتے ہیں؛جبکہ شیعوں میں سے خاص طور پر امامیہ اور اسماعیلیہ حضرت علی علیہ السلام کو [[رسول اللہ]]کا بلا فصل جانشین سمجھتے ہیں ۔
وہابیوں نے قبرستان بقیع پر کئی حملے کیے گئے مگر مکمل طور پر 8/ شوال 1344ھ میں سعودی جب مدینہ پر آخری بار قابض ہوئے قبرستان کو تباہ و منہدم کر کے تمام قیمتی سامان غارت کر کے چوری کر کے لے گئے؛وہابیوں کے اس اقدام نے دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے اور جب دنیا بھر میں ان کے اس گھناؤنے عمل کے خلاف اعتراضات ہوئے اور لوگوں نے اپنے غصے اور آل سعود سے نفرت کا اظہار کیا تو وہ مکمل منصوبہ بندی کے باوجود حرم نبوی کو منہدم کرنے کی جراّت نہ کر سکے۔
علمائے اسلام نے وہابی آراء کی تردید میں کتب لکھی ہیں اور بعض دیگر نے اصولی طور پر وہابی عقائد کو علمی انداز سے رد کیا ہے جبکہ وہابی سرگرمیاں جاری رہنے کی بنا پر کتب و مقالات آج بھی لکھے جارہے ہیں؛ ان حوالوں سے لکھی جانے والی بعض کتب نمونے کے طور پر متعارف کرائی جاتی ہیں۔