وہابیت عمل کو ایمان کی ایک شرط سمجھتی ہے، لہذا اگر کوئی شہادتین زبان پر جاری کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، لیکن وہ استغاثے کا بھی قائل ہو تو اسے کافر سمجھا جاتا ہے؛ کیونکہ وہ خدا کے سوا کسی اور سے درخواست کرکے کفر کی وادی میں داخل ہوگیا ہے۔ جبکہ دیوبندی ایسی بات نہیں کہتے ہیں اور عمل کو ایمان کے لیے شرط نہیں سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ اس سلسلے میں شاہ اسماعیل کا نظریہ ظاہر کرتا ہے۔وہابیت عمل کو ایمان کی ایک شرط سمجھتی ہے، لہذا اگر کوئی شہادتین زبان پر جاری کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، لیکن وہ استغاثے کا بھی قائل ہے تو اسے کافر سمجھا جاتا ہے؛ کیونکہ وہ خدا کے سوا کسی اور سے درخواست کرکے وادئ کفر میں داخل ہوگیا ہے۔ جبکہ دیوبندی ایسی بات نہیں کہتے ہیں اور عمل کو ایمان کے لیے شرط نہیں سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ اس سلسلے میں شاہ اسماعیل کا نظریہ ظاہر کرتا ہے۔
مولانا شاہ اسماعیل، شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے ہیں۔ شاہ اسماعیل ،دیوبندیوں کے یہاں خاص اعتبار کے حامل ہیں، اسی لیے تکفیر کا موضوع انکے نقطۂ نظر سے حنفی مذہب کےدیوبندی پیروکاروں کے لیے خاصہ اہم ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وہابیت اپنے بڑھتے ہوئے پروپیگنڈوں کے ساتھ حنفی مسلمانوں کو اپنے خود کے افکار کی طرف راغب کرنا چاہتی ہے اور اس کے ذریعہ اپنے تکفیری افکار کو مسلمانوں تک پہنچا رہی ہے۔
مولانا رشید احمد گنگوہی نے شاہ اسماعیل دہلوی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ شاہ اسماعیل سے پوچھا گیا:«اگر کوئی کسی ایسے کام کا مرتکب ہو کہ جسکا ذکر کتاب ’’تقویة الایمان‘‘ میں شرک کے مصادیق میں ہوا ہو، جیسےغیرِخدا کے لیے نذر کرنا، قبروں کو چومنا، قبروں پر چادر چڑھانا، خدا کے سوا کسی اور کی قسم کھانا، اور اس جیسے دوسرے موارد...توکیا اس شخص کو کافر سمجھا جائے گا اور اس کی جان اور اس کا مال مباح ہے؟ اس کے جواب میں، شاہ اسماعیل دہلوی نے کہا: کسی شخص کی تکفیر صرف ان چیزوں کے لئے جائز نہیں ہے۔ کیونکہ ایمان اور کفر کی بہت سی شاخیں ہیں اور ایمان کی ایک شاخ حُسنِِ خلق ہے، بلکل ویسے ہی کہ جیسےکافر صرف یہ صفت رکھنے سے ہی مومن نہیں سمجھا جاسکتا ہے، ویسے ہی مؤمن بھی محض خدا کے علاوہ کسی اور کے نام کی قسم کھانے پر یا دوسرے اعمال بجا لانے پرکافر نہیں سمجھا جاسکتا ہے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ اس میں ایمان کی بہت سی ایسی شاخیں اور شعبے ہوں جسکی وجہ سے وہ محبوب و مقرب درگاہ الٰہی قرار پاتا ہو» ۔ [۱]
کتاب ’’تقویة الایمان‘‘ در حقیقت کتاب "التوحید محمد ابن عبد الوہاب" کی شرح اور ترجمہ ہے؛ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں، تمام تکفیری کتاب ’’التوحید ‘‘کو ہی حوالہ قرار دیتے اور اس کی طرف استناد کرتے ہوئے مسلمانوں کے خون انکی جان اور ان کے مال کو مباح اور جائز اعلان کرتے ہیں۔ پھر بھی شاہ اسماعیل واضح انداز میں ان کاموں کے انجام دینے اور کفر کے درمیان کسی طرح کے تلازم کے قائل نہیں ہیں اور انکے مابین تلازم و تعلق کا واضح طور سے انکار کرتے ہیں۔ رشید احمدگنگوہی بھی، شاہ اسماعیل کے الفاظ کی تصدیق کرتے ہوئے، معتقد ہیں کہ:«بہت سے بظاہر شرک آمیز نظر آنے والے کاموں کی تأویل کی جاسکتی ہے، لہٰذا تکفیر اور شرک کا حکم جاری کرنے میں محتاط اور احتیاط سے کام لینا چاہیئے»۔[۲]
لیکن وہابی،ایمان اور عمل کو متلازم مانتے اور انہیں لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ ابن عثیمین اور صالح الفوزان، وہابیوں کے معروف مفتی، ایمان کی تفسیر میں کہتے ہیں: «اہل سنت و الجماعت ایمان کو، قلب سے اعتراف، زبان سے قرار، اعضاء و جوارح سے اظہار بیان کو کہتے ہیں»[۳] جیسا کہ اس جملے سے یہ بات واضح ہے کہ وہابیت عمل کو ایمان میں شرط مانتی ہے، لہٰذا اگر کوئی زبان پر شہادتین جاری کرتا ہو، نماز پڑھتا ہو، روزہ رکھتا ہو، لیکن مثلاً استغاثہ بھی کرتا ہو تو کافر محسوب ہوگا؛ کیونکہ وہ خدا کے سوا کسی اور سے درخواست کرکے وادیٔ کفر میں داخل ہوگیا ہے۔ تاہم ، دیوبندی ایسی بات نہیں کہتے ہیں اور عمل کو ایمان کے لیے شرط نہیں سمجھتے ہیں۔
کچھ نظریاتی اور اعتقادی امور میں دیوبندی اور وہابی مشترکات کے باوجود، ایمان و کفر کی بحث میں انکے نظریات بنیادی طور پر مختلف ہیں۔ دیوبندی آسانی سے مسلمانوں پر کفر کا الزام نہیں لگاتے ہیں ، لیکن وہابیت بڑی ہی آسانی سے زیادہ تر مسلمانوں پر کفر کا الزام عائد کرتی نظر آجاتی ہے۔
از قلم: سید لیاقت علی کاظمی الموسوی
منابع و مأخذ:
[1] رشید احمد گنگوہی، فتاوائے رشیدیہ ، دار الاشاعات ، کراچی ، ، ص۲۲۱-۲۲۳۔
[2]۔ گزشتہ حوالہ ، صفحہ 223۔
[3]ابن عثیمین ، محمد ، مجموع الفتاوی و رسائل، ریاض، دارالوطن، 1413ق، ج1، ص48؛ صالح الفوزان، مجموع فتاوی، دار ابن خزیمہ، 1424ق، ج1، ص12.
Add new comment