ردّ حدیث « نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوبکر کے قلب میں تمام علوم کا ڈالنا»

Mon, 03/01/2021 - 06:06

حضرت ابوبکر کے فضائل میں ایک جعلی اور من گھڑت حدیث روایت کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ: خداوند متعال نے میرے قلب میں کچھ نہیں ڈالا، مگر یہ کہ میں نے اسے ابوبکر کے سینہ میں نہ ڈال دیا ہو۔ یہ حدیث دلالت  کے لحاظ سے اہل سنت کے مورد قبول تاریخ شواہد کے منافی ہے، اور سنی علماء نے اسے باطل اور جعلی سمجھا ہے۔

علوم

پیغمبر اسلام(ص) کی ذات اقدس کی طرف منسوب ناروا تہمت اور مضحکہ خیز حدیث میں سے ایک ابوبکر کے فضائل سے متعلق ایک روایت بیان کی گئی ہے جس میں منسوب کیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ہے کہ:«ما صبّ الله شیئاً فی صدری الاّ و قد صبّه فی صدر ابی‌بکر.[1]؛اللہ تعالیٰ نے میرے سینے میں کچھ نہیں ڈالا ، مگر یہ کہ میں نے اسے ابوبکر کے سینے میں نہ ڈال دیا ہو۔
یہ حدیث اتنی بے معنی اور من گھڑت ہے کہ غور و فکر کے بغیر بھی، اس بات کا احساس کیا جاسکتا ہے کہ یہ جعلی اور من گھڑت ہے۔ کیوں کہ کوئی بھی عقل سلیم  یہ بات قبول نہیں کرسکتی کہ جو بات ابوبکر جانتے تھے وہ رسول خدا(ص) کے علم کے برابر ہے، جبکہ ابوبکر کی بہت ساری جہل پر مبنی باتیں اور غلطیاں اور لغزشیں علماء اہل سنت کی تصریحات کے ساتھ انکی کتابوں میں مندرج ہیں؛ دوسری طرف، بہت سارے شواہد اور ثبوت موجود ہیں، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر زیادہ تر معاملات میں، دین کے احکام و مسائل کو جاننے کے لیے  صحابہ کرام، خصوصاً امام علی علیہ السلام کی طرف مراجعہ کیا کرتے تھے اور مختلف مسائل کے حکم ان سے پوچھتے تھے؛علامہ امینیؒ نے ان مطالب کو اپنی بیش قیمتی کتاب "الغدیر" میں اہل سنت کی کتابوں سے جمع کیا ہے۔ [2]
مثال کے طور پر،وہ قضیہ جو ابوبکر کی جہالت کا بیّن ثبوت ہے کلمۂ «أبّا» کے بارے میں ہے، جب ان سےآیت کریمہ: «وَ فاكِهَةً وَ أَبًّا.[31/عبس]  میں آئے اس لفظ کے بارے میں سوال ہوا تو تو جواب نہ دے سکے اور اپنی جہالت و نادانی کا اس طرح اعتراف کیا: «وہ کونسا آسمان ہے جو مجھ پر ٹوٹ پڑے اور وہ کونسی زمین ہے جو مجھے اٹھائے اور میں کہاں جاؤں اور کیا کروں، کہ کوئی ایسا لفظ خدا کی کتاب سے بیان کردوں جس کا ارادہ اس نے نہ فرمایا ہو»[3] ساتھ ہی جب ان سے سورۂ نساء میں آئے لفظ «کلالہ» کے بارے میں بھی پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: "میں اس کلمے کے بارے میں اپنی خود کی رائے بیان کرتا ہوں اگر یہ درست ہوا تو درحقیقت یہ وہ واقیعت ہوگی جو خدا نے میری زبان سے جاری کیا ہے لیکن اگر میں غلطی کرتا ہوں تو یہ میرے اور شیطان کی طرف سے ہے کہ خدا اور اس کا رسول خطا سے منزّہ و مبرّہ ہیں۔ [ 4]
نیز اس جعلی حدیث کو مسترد کرتے ہوئے اہل سنت کے اہل فن اور حدیث شناس علماء نے تخطئہ وارد کیا ہے اور مسترد کردیا ہے اور واضح طور پر اعتراف کیا ہے کہ یہ جعلی و موضوع اور من گھڑت ہے من جملہ ابن جوزی[5] ، فیروزآبادی[6] ، شوکانی[7] اور دہلوی جیسے علماء کے، مثال کے طور پر، دہلوی کہتے ہیں: "اس خبر کی صحت کو تسلیم کرلینے سے رسول خدا کے ساتھ ابوبکر کی مساوات و برابری لازم آئے گی مساوات کا باعث بنے گا، اور یہ بات کس قدر قبیح اور بری ہے کہ کسی رعیّت و امتی کو آقا و مولا کے برابر مان لیا جائے"۔[8]
نتیجتاً تو خود از این مجمل کلام مفصل خوان

منابع و ماخذ:

[1]. تفسیر غرائب القرآن، نظام نیشابوری، دار الکتب العلمیه، بیروت، لبنان، ج3 ص471۔
[2]. الغدیر، علامه امینی، طبعه النجف الاشرف، نجف، عراق، ج7 ص69-329۔
[3]. تفسیر الجامع الاحکام القرآن، قرطبی، دار الکتب العربی، بیروت، لبنان، ج1 ص29۔
[4]. تفسیر جامع البیان، طبری، هجر، قاهره، مصر، ج6 ص30۔
[5]. الموضوعات، ابن جوزی، دار الکتب العلمیه، بیروت، لبنان، ج1 ص237۔
[6]. سفر السعاده، فیروز آبادی، دار القلم، بیروت، لبنان، ص280۔
[7]. الفوائد المجموعه فی الاحادیث الموضوعه، شوکانی، ص335۔
[8]. أشعه اللمعات، عبدالحق دهلوی، مطبعه نول، بمبئی، هند، ج4 ص350۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
10 + 10 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 72