خلاصہ: حکومتوں کے مختلف شرائط ہوتے ہیں، جو حکومت نظامِ ولایت کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہو، اس کے بھی کچھ شرائط اور صفات ہیں، ان میں سے بعض کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نظامِ ولایت کی حکومت میں سب حکومتی اہلکار، اللہ تعالیٰ کے احکام کو جاری کرنے کے ذمہ دار ہیں اور قانون کے خلاف اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی نیچے والے شخص کو اوپر والے اہلکار کی فرمانبرداری نہیں کرنی چاہیے اور کوئی سرکاری اہلکارحتی خود خلیفہ بھی لوگوں سے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے اور قانون کی پابندی کے علاوہ کوئی توقع نہیں رکھ سکتا۔
نظامِ ولایت میں کسی مقام کو حاصل کرنے کے لئے، جیسا کہ دوسرے نظاموں میں ہوتا ہے، افراد کے درمیان مقابلہ نہیں ہوتا اور اگر کوئی شخص یا گروہ، فوقیت اور برتری پانے کے لئے کسی مقام کو حاصل کرنا چاہے تو اُس مقام کی اس میں صلاحیت نہیں پائی جاتی۔
اِس نظام میں مقام، عہد اور ذمہ داری لاتا ہے اور جتنا انسان کا مقام حسّاس ہوگا اور اس کی حکومتی حدود زیادہ وسیع ہوں گی اتنی اس کی ذمہ داری زیادہ ہوگی۔ ہر صاحبِ مقام کی قدر و منزلت اس کے عمل میں پائے جانے والے خلوصِ نیت اور اچھے برتاؤ جتنی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ شہر کی صفائی کرنے والے آدمی کی اپنے اس کام میں جو خلوصِ نیت ہے اور وہ اپنی اس ذمہ داری میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا جو خیال رکھتا ہے، اس وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شہر کے حاکم اور والی سے زیادہ محبوب ہو۔
اور بالآخر یہی نظامِ امامت ہے جس میں عقیدۂ توحید ظاہر ہوتا ہے اور توحیدی معاشرہ، امت واحدہ، دینِ واحد، قانونِ واحد، حکومتِ واحد اور بین الاقوامی حکومت، "اسلام" کو قائم کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔
[ماخوذ از: سلسلہ مباحث امامت و مہدویت، آیت اللہ لطف اللہ صافی گلپایگانی]
Add new comment