خلاصہ: تاریخ میں غور کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کی فرمانبرداری نہ کرنے والے بعض لوگ ایسے تھے جو غور کیے بغیر دشمن کا ساتھ دیتے تھے، ان کی گمراہی کی وجہ اندھادھند تقلید تھی، جبکہ کچھ غور کرلیتے تو ان کے لئے حق و باطل واضح ہوجاتا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی حکومت کے دور میں بہت سارے مسلمانوں نے اُس زمانے کے سیاسی اور مذہبی شخصیات (معروف افراد) کا ساتھ دیا جو بعد میں "ناکثین"، "قاسطین" اور "مارقین" کے نام سے مشہور ہوئے، ان لوگوں کی شخصیت پرستی والی بیماری کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے خالص اسلام کو چھوڑ دیا، پھر اسی پر بھی اکتفاء نہ کیا اور اسلام کے سامنے کھڑے ہوگئے جس کی تلخی اب تک اسلامی معاشروں پر اثرانداز ہے۔حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے لئے یہ بات انتہائی دردناک تھی کہ آپؑ دیکھ رہے تھے کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور آنحضرتؐ کے مخلص اصحاب کی محنتیں ضائع ہورہی ہیں، البتہ یہ نقصانات ان اصحاب کے کردار کا نتیجہ تھا جو کسی دن آنحضرتؐ کے ساتھ مل کر جہاد کرتے تھے اور آنحضرتؐ کے بعد ان کا کردار بدل گیا۔
جو بات حضرت علی (علیہ السلام) کو زیادہ تکلیف دیتی تھی یہ تھی کہ مسلمان خود کچھ غور نہیں کرتے کہ انہیں سمجھ آجائے کہ کیا ان شخصیات اور راہنماؤں کی بات صحیح ہے یا غلط؟ اور جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے کیا حق ہے یا باطل؟ اور جو مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں کیا وہ واقعی طور پر اسلام کے حامی ہیں یا اسلام کو اپنے ذاتی مقاصد تک پہنچنے کا ذریعہ بناتے ہیں؟
یقیناً اُن گمراہ شخصیات کے اندھے اور بہرے پیروکار، خود اُن شخصیات سے بڑھ چڑھ کر آپؑ کے لئے تکلیف کا باعث تھے۔ کیونکہ اگر یہ پیروکار نہ ہوتے تو خود ان شخصیات کی کوئی طاقت نہیں تھی۔
لہذا حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام)کا ارشاد ہے :"لا يُعرَفُ الحَقُّ بِالرِّجالِ، اعرِفِ الحَقَّ تَعرِف أهلَه" ، "حق، شخصیات (مشہور افراد) کے ذریعے نہیں پہچانا جاتا، حق کو پہچانو تاکہ حق والوں کو پہچان لو"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ ماخوذ از: دانشنامه عقايد اسلامی، محمدی ری شهری]
Add new comment