خلاصہ: امام کی معرفت حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنے کی اس قدر اہمیت ہے کہ قرآن، احادیث اور عقل کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ امام کی پہچان ضروری ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام کو پہچاننے کے لئے کوشش کرنا اس لیے واجب ہے کہ کم از کم یہ احتمال ہے کہ امام ایسی شخصیت ہو کہ جس کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر واجب ہو اور امور پر اس کی ولایت ہو اور قرآن کریم کا مفسِّر، احکام کو بیان کرنے والا اور لوگوں کے دین اور دنیا کا راہنما ہو۔
اس احتمال کی بنیاد پر ہماری عقل ہم پر ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ اس سلسلہ میں تحقیق کریں اور اسے پہچانیں اور اگر اس ذمہ داری میں ہم کوتاہی کریں اور ایسی شخصیت موجود ہو اور ہم اسے نہ پہچانیں تو اللہ تعالیٰ کے مواخذہ سے چھٹکارے کے لئے ہمارے پاس کوئی حجت نہیں ہوگی۔ عقل اور ضمیر انسان کو مجبور کرتا ہے کہ اس احتمال کا تعاقب کرو تاکہ کسی نتیجہ تک پہنچ جاؤ۔
یہی طریقہ پیغمبر اور اللہ کی پہچان کے لئے کوشش کرنے کے بارے میں بھی جاری ہوتا ہے۔ کوئی شخص ایسے مسائل کے سامنے لاپرواہ نہیں ہوسکتا اور اس کے پاس ان سوالات کے لئے جواب ہونا چاہیے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد کے لئے کسی کو راہنما کے طور پر مقرر کیا ہے؟ اور اگر مقرر کیا ہے، مقرر ہونے والا شخص کون ہے؟ اگر انسان کو ان سوالات کی طرف کوئی متوجہ نہ کرے تو خودبخود یہ سوالات اس کے لئے پیش آئیں گے۔
اس کے علاوہ امام کی پہچان کے بارے میں قرآن کریم اور احادیث بھی نشاندہی کرتی ہیں، جیسے سورہ نساءکی آیت ۵۹ میں ارشاد الٰہی ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ"، "اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں (فرمان روائی کے حقدار ہیں)"۔
واضح ہے کہ اس آیت کے مطابق، ولی امر کی اطاعت واجب ہے اور اور اطاعت پہنچان کے بغیر ناممکن ہے، لہذا امام کی معرفت واجب ہے، اسی لیے امام کی معرفت حاصل نہ کرنے اور اس بارے میں تحقیق اور چھان بین نہ کرنے کے لئے کسی شخص کے پاس کوئی حجت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔
[ماخوذ از: سلسلہ مباحث امامت و مہدویت، آیت اللہ لطف اللہ صافی گلپایگانی]
[ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی]
Add new comment