عقاید
خلاصہ: دین اسلام انسان کی حفاظت کرتا ہے اور دین تب قائم رہتا ہے جب اس کی حفاظت کی جائے، حفاظت کے لئے دین کی پہچان اور معرفت ہونی چاہیے، اہل بیت (علیہم السلام) کیونکہ دین اسلام کی مکمل طور پر معرفت رکھتے ہیں تو دین اسلام کے وہی حقیقی محافظ ہیں۔
خلاصہ: دین اسلام نے جیسے جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کو ان برے حالات سے نجات دی اسی طرح اب ہمارے زمانے میں بھی تمام عالَم انسانیت کو نجات صرف دین اسلام کے ذریعے مل سکتی ہے۔
خلاصہ: جب انسان ضرورت مند ہو اور اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اصلی چیز کو چھوڑ دے تو کیونکہ ضرورت کو پورا کرنے پر ناچار ہے تو نقلی چیز کے ذریعے اسے اپنی ضرورت کو پورا کرنا پڑے گا، مگر وہ صرف دھوکے کا شکار ہوا ہے، کیونکہ نقلی چیز پیاس کو بجھاتی نہیں، بڑھاتی ہے۔
خلاصہ: انسان اور حیوان کا بنیادی فرق عقل کے لحاظ سے ہے۔ صاحبِ عقل ہونے کا فائدہ تب ہے کہ انسان اس عقل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے دین کو سمجھے اور اس پر عمل کرتا ہوا اللہ کا عبد بنے۔
خلاصہ: دین اسلام کی حقانیت اور جامعیت اس بات سے واضح ہوجاتی ہے کہ جہاں بھی کسی کا حق ضائع ہورہا ہے اور جو ظلم و ستم کررہا ہے، درحقیقت دین اسلام پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے دنیابھر میں اتنے مسائل پائے جاتے ہیں۔
خلاصہ: صرف دین ہی انسان کے تمام مسائل کا حل پیش کرسکتا ہے اور اسے سعادت تک پہنچا سکتا ہے جو دین اسلام ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتب اور اپنے مقرر کردہ انبیاء اور اوصیاء (علیہم السلام) کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا ہے۔
خلاصہ: دنیا و آخرت میں دین اسلام، انسان کی حفاظت کرتا ہے، مگر اس تحفظ کے لئے دین اور انسان کا باہمی تعلق ہے، یعنی دین تب انسان کو تحفظ دے گا کہ انسان دین کو محفوظ رکھے اور کیونکہ دین، اللہ تعالِٰی کے نزدیک صرف اسلام ہے، لہذا ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ دین اسلام کو ہر طرح کی تحریف، بدعت اور من گھڑت نظریات سے بچائے۔
خلاصہ: انسان کو دین کی اس قدر ضرورت ہے کہ انسان صرف آخرت کے لئے اس کا محتاج نہیں، بلکہ دنیا میں بھی اس کا محتاج ہے۔ جب انسان دنیا اور آخرت کے مسائل کے متعلق دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق عمل کرتا ہے تو دین اسلام اس کی حفاظت کرتا ہے۔
خلاصہ: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی حدیث پر قرآن کریم کی روشنی میں غوروخوض کرنے کے لئے دو آیات کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن میں اللہ کی عبادت کو دین کہا گیا ہے۔
خلاصہ: قرآن کریم میں کئی کئی آیات میں اللہ سے وابستہ رہنا (اعتصام) کا تذکرہ ہوا ہے نیز اللہ کی رسّی کو تھامنے کا حکم بھی ہوا ہے، اس مضمون میں روایات کی روشنی میں اس بارے میں وضاحت کی جارہی ہے۔