خلاصہ: ولایت اور حکومت، اللہ تعالیٰ کا حق ہے، لہذا جسے اللہ اذن دے وہی شخص حکومت کرسکتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر ولایت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونی چاہیے، حتی باپ کی اپنے بچہ پر ولایت اور انسان کی اپنی جان اور مال پر ولایت، اور حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے دورِ غیبت میں فقیہ کی ولایت، اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ولایت، یہ سب ولایتیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونی چاہئیں۔
لہذا جو ولایت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو، وہ بالکل معتبر نہیں ہے، اسی لیے اگر اللہ تعالیٰ نے باپ کو اس کے بچہ پر ولایت نہ دی ہوتی تو باپ کو اس پر کوئی ولایت حاصل نہیں تھی۔
بنابریں امامت، خلافت اور ولایت کا نظام اللہ کی جانب سے ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی ولایت اور حکومت کو جاری کرنا چاہیے تا کہ حکومت، شرعی ہو اور اس کے حکم کی اطاعت واجب ہو۔ اسی لیے جب امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) یا جامع الشرائط مجتہدین میں سے کسی ایک کی طرف سے جن کے پاس دورِ غیبت میں نیابتِ عامہ ہے، کوئی حکم دیا جائے اور اس کی مخالفت ہو تو ایسا ہے جیسے اللہ کے حکم کو حقیر سمجھا گیا ہو اور امام (علیہ السلام) کے حکم کو ٹھکرانے کے برابر ہے۔
نظامِ امامت، حکومتی اور ولایتی لحاظ سے نہ اوپر سے نیچے کی طرف ہے اور نہ نیچے سے اوپر کی طرف یعنی نہ اس طرح جیسے گاؤں کی کونسلیں ہوتی ہیں کہ نیچے والے اوپر والوں کا تقرر کریں اور نہ ہی اوپر والے نیچے والوں کا تقرر کریں جیسے وزارتخانے، شہروں کی کونسلوں پر اور شہر کی کونسلیں گاؤں پر حاکم ہوں، اور نہ ہی ایک شخص کی حکومت جیسے آمرانہ حکومت جس میں بادشاہ سب پر حاکم ہوتا ہے اور وہ اپنی مرضی کے مطابق حکم دے۔ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے، بلکہ اسلام کا نظام، شرعی امامت و حکومت کا نظام ہے، نہ نیچے سے اوپر والوں کا انتخاب اور نہ اوپر سے نیچے والوں پر حکمرانی، بلکہ اللہ کا نظام ہے، اور حکومت و امارت جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے ابن عباس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا، حق کو قائم کرنے اور باطل کوروکنے کاذریعہ ہے اور اگر اِس حد سے نکل جائے تو نہ حکومت، شرعی حیثیت رکھتی ہے اور نہ اس کی اطاعت واجب ہے۔
۔۔۔۔۔
[ماخوذ از: سلسلہ مباحث امامت و مہدویت، آیت اللہ لطف اللہ صافی گلپایگانی]
Add new comment